- (كنا نصلي مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - العشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره، وإذا رفع راسه اخذهما [بيده من خلفه اخذا رفيقا]، فوضعهما وضعا رفيقا، فإذا عاد، عادا، فلما صلى [وضعهما على فخذيه] واحدا ههنا، وواحدا ههنا، قال ابو هريرة رضي الله عنه: فجئته، فقلت: يا رسول الله! الا اذهب بهما إلى امهما؟! قال: لا، فبرقت برقة، فقال: الحقا بامكما. فما زالا يمشيان في ضوئها، حتى دخلا [إلى امهما]).- (كنّا نصلِّي مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - العِشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره، وإذا رفع رأسَه أخذهما [بيده من خلفه أخذاً رفيقاً]، فوضعهما وضعاً رفيقاً، فإذا عاد، عادا، فلمّا صلَّى [وضعهما على فخذيه] واحداً ههنا، وواحداً ههنا، قال أبو هريرة رضي الله عنه: فجئته، فقلت: يا رسول الله! ألا أذهب بهما إلى أمهما؟! قال: لا، فبرقت برقة، فقال: الحقا بأمكما. فما زالا يمشيان في ضوئها، حتى دخلا [إلى أمهما]).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، اچانک سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما آپ کی پشت پر چڑھ گئے۔ جب آپ سر مبارک اٹھاتے تو ان کو پیچھے سے نرمی سے پکڑ لیتے اور بڑی ہی شفقت سے ان کو زمین پر رکھ دیتے۔ پھر جب آپ سجدہ کرتے تو وہ پھر چڑھ جاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تو ان کو اپنی ران پر بٹھا لیتے، یعنی ایک کو (ایک ران پر) اور دوسرے کو (دوسری ران پر)۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان دونوں کو ان کی ماں کے پاس نہ لے جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“۔ اتنے میں جب بجلی چمکنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔“ پھر وہ بجلی کی روشنی میں چلتے رہے یہاں تک کہ اپنی ماں کے پاس چلے گئے۔