سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر
سلسله احاديث صحيحه
اخلاق، نیکی کرنا، صلہ رحمی
1615. عورتوں سے نرمی کرنا
حدیث نمبر: 2438
Save to word مکررات اعراب Hindi
- (كذلك سوقك بالقوارير، يعني النساء. قاله - صلى الله عليه وسلم - في حجة الوداع).- (كذلك سَوْقُكَ بالقوارير، يعني النساء. قاله - صلى الله عليه وسلم - في حجة الوداع).
سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ساتھ حج کیا، دوران سفر ایک آدمی ا‏‏‏‏ترا، اور امہات المؤمنین کی سواریوں کو تیزی سے چلایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح شیشوں کو لے کر چلتے ہیں؟ سو وہ چل رہے تھے کہ سیدہ صفیہ بنت حی کا اونٹ بیٹھ گیا، حالانکہ ان کی سواری سب سے اچھی تھی، وہ رونے لگ گئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھنے لگ گئے، وہ اور زیادہ رونے لگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو منع کرتے رہے۔ جب وہ بہت زیادہ رونے لگ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور لوگوں کو اترنے کا حکم دے دیا، سو وہ اتر گئے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اترنے کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں: صحابہ کرام اتر پڑے اور اس دن میری باری تھی۔ جب صحابہ اترے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ نصب کیا گیا، آپ اس میں داخل ہو گئے۔ وہ کہتی ہیں: یہ بات میری سمجھ میں نہ آ سکی کہ میں کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھس جاؤں اور مجھے یہ ڈر بھی تھا کہ (‏‏‏‏ممکن ہے کہ) آپ کے دل میں میرے بارے میں کوئی ناراضگی ہو۔ وہ کہتی ہیں: (‏‏‏‏بہرحال) میں سیدہ عائشہ کے پاس گئی اور ان سے کہا: تم جانتی ہو کہ میں کسی چیز کے عوض اپنے دن کا سودا نہیں کروں گی، لیکن میں تجھے اپنی باری کا دن اس شرط پر ہبہ کرتی ہوں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کروا دو۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اب وہ کہتی ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے زعفران میں رنگی ہوئی چادر لی اور اس پر پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو تروتازہ ہو جائے، پھر اپنے کپڑے زیب تن کیے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلی گئی اور (‏‏‏‏جا کر) خیمے کا ایک کنارہ اٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ یہ دن تیرا تو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے۔ آپ اپنی اہلیہ کے پاس ہی ٹھہرے رہے۔ جب شام ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش سے فرمایا: اے زینب! اپنی بہن صفیہ کو ایک اونٹ مستعار دے دو۔ دراصل ان کے پاس سواریاں زیادہ تھیں۔ لیکن زینب نے کہا: کیا میں آپ کی یہودیہ کو مستعار دے دوں؟ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ناراض ہو گئے اور قطع کلامی کر لی اور اس سے کوئی بات نہ کی، حتی کہ مکہ پہنچ گئے، پھر آپ کے سفر میں منیٰ والے دن (بھی بیت گئے) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آ گئے اور محرم اور صفر کے (‏‏‏‏دو ماہ) بھی گزر گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زینب کے پاس گئے اور نہ اس کے لیے کوئی باری تقسیم کی۔ وہ بھی آپ سے ناامید ہو گئیں۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو آپ اس کے پاس گئے۔ زینب نے آپ کا سایہ دیکھا اور کہا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہے اور آپ تو میرے پاس آتے ہی نہیں، سو یہ (‏‏‏‏سائے والا) کون ہو سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس داخل ہوئے، جب زینب نے آپ کو دیکھا تو کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے آنے سے (‏‏‏‏مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے) کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں۔ وہ کہتی ہیں: ان کی ایک لونڈی تھی، جس کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رکھتی تھیں۔ پھر ا‏‏‏‏س نے کہا: فلاں لونڈی آپ کے لیے ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب کی چارپائی کی طرف گئے، جسے اٹھا دیا گیا تھا، آپ نے ا‏‏‏‏س کو اپنے ہاتھ سے بچھایا، پھر اپنی اہلیہ سے مباشرت کی اور ا‏‏‏‏ن سے راضی ہوئے۔

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.