- (اجل، فلا ترد عليه، ولكن قل: غفر الله لك يا ابا بكر! غفر الله لك يا ابا بكر!).- (أجل، فلا ترُدَّ عليهِ، ولكن قل: غفر اللهُ لك يا أبا بكرٍ! غفر الله لك يا أبا بكرٍ!).
سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زمین دی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی زمین دی۔ ہم پر دنیا غالب آ گئی، کھجور کے ایک درخت کے بارے میں ہمارا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میری زمین کی حد میں ہے۔ میں نے کہا: یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان سخت کلامی ہوئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا اور وہ خود بھی شرمندہ ہوئے۔ (بالآخر) انہوں نے مجھے کہا: اے ربیعہ! مجھے یہی کلمہ کہو تاکہ بدلہ ہو جائے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تجھے ضرور کہنا پڑے گا، ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کروں گا۔ میں نے کہا: میں ایسا (جملہ) نہیں کہوں گا۔ ربیعہ کہتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ زمین چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیے، میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بنو اسلم قبیلہ کے چند لوگ آئے اور انہوں نے کہا: اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، بھلا وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز کے متعلق تیرے خلاف فریاد کریں گے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکے۔ میں نے کہا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، (غار ثور) کے دونوں میں سے دوسرے وہ تھے اور وہ مسلمانوں کے بزرگ ہیں۔ پس تم بچو (کہیں ایسا نہ ہو) کہ وہ تم کو اپنے خلاف میری مدد کرتے ہوئے دیکھ کر غصے ہو جائیں، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور آپ اس کے غصے کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائے اور ربیعہ ہلاک ہو جائے۔ انہوں نے کہا: تو (پھر ایسے میں) تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا: تم چلے جاؤ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور میں بھی اکیلا ہی ان کے پیچھے چل پڑا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جیسی بات تھی ویسے ہی بیان کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر میری طرف اٹھایا اور فرمایا: ”اے ربیعہ تیرے اور صدیق کے مابین کیا معاملہ ہے؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! معاملہ تو ایسے ایسے تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا، پھر انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں بھی ان کو وہی بات کہہ دوں تاکہ لے پلے ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے، تم نے اب (قصاصًا) وہ بات دوہرانی نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا ہے کہ اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف کر دے۔ اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف کر دے۔“ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ رو رہے تھے۔