-" لقد تاب توبة لو تابها اهل المدينة لقبل منهم".-" لقد تاب توبة لو تابها أهل المدينة لقبل منهم".
علقمہ بن وائل کندی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک عورت نماز کے ارادے سے (گھر سے) نکلی، اسے راستے میں ایک آدمی ملا، اس نے اسے گرا دیا اور بدکاری کی۔ وہ چیخ و پکار کرنے لگی، وہ آدمی چل دیا۔ (اتنے میں) اس کے پاس سے کوئی دوسرا شخص گزرا، اس نے اسے بتایا کہ اس آدمی نے میرے ساتھ بدکاری کی ہے۔ پھر وہ مہاجرین کے ایک گروہ کے پاس سے گزری اور انہیں بتایا کہ فلاں آدمی نے میرے ساتھ ایسے ایسے کیا ہے۔ وہ گئے اور اس آدمی کو پکڑ کر اس عورت کے سامنے لے آئے، اس نے کہا: واقعی یہی آدمی ہے۔۔۔ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو ایک دوسرا آدمی، جو درحقیقت مجرم تھا، اٹھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اس سے بدکاری کرنے والا (یہ شخص نہیں ہے) بلکہ میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو چلی جا، اللہ تعالیٰ نے تجھے معاف کر دیا ہے۔“ پھر سابقہ آدمی کے بارے میں کلمہ خیر کہا اور (اپنے جرم کا اقرار کرنے والے) زانی آدمی کے بارے میں فرمایا: ”اس کو رجم (سنگسار) کر دو۔“ اور فرمایا: ”اس اقرار کرنے والے آدمی نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اتنی توبہ کر لیں تو ان سے قبول کی جائے۔“