- (هاجر خالد بن حزام إلى ارض الحبشة، فنهشته حية في الطريق فمات، فنزلت فيه: (ومن يخرج من بيته مهاجرا إلى الله ورسوله ثم يدركه الموت فقد وقع اجره على الله وكان الله غفورا رحيما) [النساء: 100]. قال الزبير بن العوام: وكنت اتوقعه وانتظر قدومه وانا بارض الحبشة، فما احزنني شيء حزن وفاته حين بلغني؛ لانه قل احد ممن هاجر من قريش إلا معه بعض اهله او ذي رحمه، ولم يكن معي احد من بني اسد بن عبد العزى، ولا ارجو غيره).- (هاجر خالد بن حزام إلى أرض الحبشة، فنهشتهُ حيةٌ في الطريق فمات، فنزلت فيه: (ومن يخرج من بيته مهاجراً إلى الله ورسوله ثم يُدرِكه الموت فقد وقع أجره على الله وكان الله غفوراً رحيماً) [النساء: 100]. قال الزبير بن العوام: وكنت أتوقعه وأنتظر قدومه وأنا بأرض الحبشة، فما أحزنني شيءٌ حُزنَ وفاته حين بلغني؛ لأنه قلَّ أحدٌ ممن هاجر من قريش إلا معه بعض أهله أو ذي رحِمِهِ، ولم يكُن معي أحدٌ من بني أسد بن عبد العُزَّى، ولا أرجو غيره).
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: خالد بن حرام نے حبشہ کی سرزمین کی طرف ہجرت کی، راستے میں ایک سانپ نے اسے ڈسا اور وہ فوت ہو گیا، پس یہ آیت نازل ہوئی: «وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَحِيمًا»”اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔“[4-النساء: 100] زبیر بن عوام کہتے ہیں کہ مجھے ان کی توقع تھی اور حبشہ میں میں ان کے آنے کا انتظار کر رہا تھا، جب مجھے ان کی وفات کی خبر ملی تو میں رنج و غم میں مبتلا ہو گیا، کیونکہ جو بھی قریش سے ہجرت کر کے گیا، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی بیوی بچہ یا رشتہ دار ہوتا تھا اور میرے ساتھ بنواسد بن عبدالعزی قبیلے کا کوئی آدمی نہ تھا اور نہ مجھے اس کے علاوہ کسی کی امید تھی۔