-" إن المؤمن ينزل به الموت ويعاين ما يعاين، فود لو خرجت - يعني نفسه - والله يحب لقاءه، وإن المؤمن يصعد بروحه إلى السماء، فتاتيه ارواح المؤمنين فيستخبرونه عن معارفهم من اهل الارض، فإذا قال: تركت فلانا في الدنيا اعجبهم ذلك، وإذا قال: إن فلانا قد مات، قالوا: ما جيء به إلينا. وإن المؤمن يجلس في قبره فيسال: من ربه؟ فيقول: ربي الله. فيقال: من نبيك؟ فيقول: نبيي محمد صلى الله عليه وسلم. قال: فما دينك؟ قال: ديني الإسلام. فيفتح له باب في قبره فيقول او يقال: انظر إلى مجلسك. ثم يرى القبر، فكانما كانت رقدة. فإذا كان عدوا لله نزل به الموت وعاين ما عاين، فإنه لا يحب ان تخرج روحه ابدا، والله يبغض لقاءه، فإذا جلس في قبره او اجلس، فيقال له: من ربك؟ فيقول: لا ادري! فيقال: لا دريت. فيفتح له باب من جهنم، ثم يضرب ضربة تسمع كل دابة إلا الثقلين، ثم يقال له: نم كما ينام المنهوش - فقلت لابي هريرة: ما المنهوش؟ قال: الذي ينهشه الدواب والحيات - ثم يضيق عليه قبره".-" إن المؤمن ينزل به الموت ويعاين ما يعاين، فود لو خرجت - يعني نفسه - والله يحب لقاءه، وإن المؤمن يصعد بروحه إلى السماء، فتأتيه أرواح المؤمنين فيستخبرونه عن معارفهم من أهل الأرض، فإذا قال: تركت فلانا في الدنيا أعجبهم ذلك، وإذا قال: إن فلانا قد مات، قالوا: ما جيء به إلينا. وإن المؤمن يجلس في قبره فيسأل: من ربه؟ فيقول: ربي الله. فيقال: من نبيك؟ فيقول: نبيي محمد صلى الله عليه وسلم. قال: فما دينك؟ قال: ديني الإسلام. فيفتح له باب في قبره فيقول أو يقال: انظر إلى مجلسك. ثم يرى القبر، فكأنما كانت رقدة. فإذا كان عدوا لله نزل به الموت وعاين ما عاين، فإنه لا يحب أن تخرج روحه أبدا، والله يبغض لقاءه، فإذا جلس في قبره أو أجلس، فيقال له: من ربك؟ فيقول: لا أدري! فيقال: لا دريت. فيفتح له باب من جهنم، ثم يضرب ضربة تسمع كل دابة إلا الثقلين، ثم يقال له: نم كما ينام المنهوش - فقلت لأبي هريرة: ما المنهوش؟ قال: الذي ينهشه الدواب والحيات - ثم يضيق عليه قبره".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے تو وہ مختلف حقائق کا مشاہدہ کر کے یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی روح نکل جائے (تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر سکے) اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں۔ مومن کی روح آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور (فوت شدگان) مومنوں کی ارواح کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ وہ اس سے اپنے جاننے پہچاننے والوں کے بارے میں دریافت کرتی ہیں۔ جب وہ روح جواب دیتی ہے کہ فلاں تو ابھی تک دنیا میں ہی تھا (یعنی ابھی تک فوت نہیں ہوا تھا) تو وہ خوش ہوتی ہیں اور جب وہ جواب دیتی ہے کہ (جس آدمی کے بارے میں تم پوچھ رہی ہو) وہ تو مر چکا ہے، تو وہ کہتی ہیں: اسے ہمارے پاس نہیں لایا گیا (اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے جہنم میں لے جایا گیا ہے)۔ مومن کو قبر میں بٹھا دیا جاتا ہے اور اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرے نبی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پھر سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ (ان سوالات و جوابات کے بعد) اس کی قبر میں ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ۔ وہ اپنی قبر کی طرف دیکھتا ہے، پھر گویا کہ نیند طاری ہو جاتی ہے۔ جب اللہ کے دشمن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے اور وہ مختلف حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ نہیں چاہتا کہ اس کی روح نکلے (تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے بچ جائے) اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ جب اسے قبر میں بٹھا دیا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میں تو نہیں جانتا۔ اسے کہا جاتا ہے: تو نے جانا ہی نہیں۔ پھر (اس کی قبر میں) جہنم سے دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے ایسی ضرب لگائی جاتی ہے کہ جن و انس کے علاوہ ہر چوپایہ اس کو سنتا ہے۔ پھر اسے کہا جاتا ہے کہ «منهوش» کی نیند سو جا۔“ میں نے سیدنا ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے پوچھا: «منهوش» سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: «منهوش» سے مراد وہ آدمی ہے جسے کیڑے مکوڑے اور سانپ ڈستے اور نوچتے رہتے ہیں۔ ”پھر اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے۔“