- (إن سرك ان تفي بنذرك؛ فاعتقي محررا من هؤلاء. يعني: من بني العنبر).- (إن سَرَّك أنْ تفي بنذْركِ؛ فأعتقي مُحَرَّراً من هؤلاء. يعني: من بني العَنْبرِ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے بنو تمیم کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں سنیں، اس کے بعد میں نے کبھی بھی بنو تمیم سے بغض نہیں رکھا۔ (ان کی تفصیل یہ ہے:)(۱) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ایک غلام آزاد کرنے کی نذر مانی تھی، اتنے میں بنو عنبر کے کچھ لوگ قیدی بن گئے، جب انہیں لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اپنی نظر پورا کرنا چاہتی ہو تو ان میں سے ایک غلام آزاد کر دو۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اولاد اسماعیل قرار دیا۔ (۲) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ کے اونٹ لائے گئے، ان کے حسن و جمال نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت میں ڈال دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میری قوم کے اونٹ ہیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قوم قرار دیا۔ نیز فرمایا: (۳)”وہ گھمسان کی جنگوں میں سخت لڑائی کرنے والے ہیں۔“