- (إن فاطمة بضعة مني، وانا اتخوف ان تفتن في دينها، وإني لست احرم حلالا، ولا احل حراما، ولكن والله لا تجتمع ابنة رسول الله وابنة عدو الله مكانا واحدا ابدا- وفي رواية: عند رجل واحد ابدا-)- (إن فاطمة بضعةٌ منّي، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها، وإني لست أحرم حلالاً، ولا أحلّ حراماً، ولكن والله لا تجتمع ابنة رسول الله وابنة عدوِّ الله مكاناً واحداً أبداً- وفي رواية: عند رجل واحد أبداً-)
علی بن حسین سے روایت ہے کہ مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں: جب لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے پاس سے واپس مدینہ منورہ پہنچے، تو میں علی بن حسین کو ملا اور کہا: کیا آپ کو میری ضرورت ہے، (اگر ہے تو) حکم دیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے دیں گے، کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں لوگ تجھ سے چھین نہ لیں اور اللہ کی قسم! اگر آپ نے مجھے دے دی تو کوئی فرد اس وقت تک اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا جب تک مجھے قتل نہ کر دے۔ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام نکاح بھیجا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ اس مسئلہ پر لوگوں سے خطاب کر رہے تھے اور میں اس وقت بالغ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ دین کے معاملے میں کسی فتنے میں نہ پڑ جائے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داماد، جو بنو عبد شمس قبیلے سے تھا، کا ذکر کیا اور اس کی دامادی کی خوب تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ”اس نے مجھ سے جو گفتگو کی اس کو سچا کر کے دکھایا اور جو عہد و پیمان کیا اسے پورا کیا۔ اور (یاد رہے کہ) میں نہ حلال کو حرام کرتا ہوں اور نہ حرام کو حلال، لیکن (اتنی بات ضرور ہے کہ) نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک مقام پر یا ایک خاوند کے گھر کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتیں۔“