18. باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
(18) Chapter: “When two parties from among you were about the lose heart, but Allah was their Wali (Protector and Supporter).” (V.3:122)
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا سفيان , اخبرنا عمرو , عن جابر , قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل نكحت يا جابر؟" قلت: نعم , قال:" ماذا ابكرا ام ثيبا" , قلت: لا بل ثيبا , قال:" فهلا جارية تلاعبك" , قلت: يا رسول الله , إن ابي قتل يوم احد وترك تسع بنات كن لي تسع اخوات , فكرهت ان اجمع إليهن جارية خرقاء مثلهن , ولكن امراة تمشطهن وتقوم عليهن , قال:" اصبت".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , أَخْبَرَنَا عَمْرٌو , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ نَكَحْتَ يَا جَابِرُ؟" قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ:" مَاذَا أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا" , قُلْتُ: لَا بَلْ ثَيِّبًا , قَالَ:" فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُكَ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ كُنَّ لِي تِسْعَ أَخَوَاتٍ , فَكَرِهْتُ أَنْ أَجْمَعَ إِلَيْهِنَّ جَارِيَةً خَرْقَاءَ مِثْلَهُنَّ , وَلَكِنْ امْرَأَةً تَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ , قَالَ:" أَصَبْتَ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا ”جابر! کیا نکاح کر لیا؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کنواری سے یا بیوہ سے؟“ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا؟ جو تمہارے ساتھ کھیلا کرتی۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے۔ نو لڑکیاں چھوڑیں۔ پس میری نو بہنیں موجود ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب نہیں خیال کیا کہ انہیں جیسی نا تجربہ کار لڑکی ان کے پاس لا کر بٹھا دوں، بلکہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی صفائی و ستھرائی کا خیال رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔
Narrated Jabir: "Allah's Apostle said to me, "Have you got married O Jabir?" I replied, "Yes." He asked "What, a virgin or a matron?" I replied, "Not a virgin but a matron." He said, "Why did you not marry a young girl who would have fondled with you?" I replied, "O Allah's Apostle! My father was martyred on the day of Uhud and left nine (orphan) daughters who are my nine sisters; so I disliked to have another young girl of their age, but (I sought) an (elderly) woman who could comb their hair and look after them." The Prophet said, "You have done the right thing."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 382
(مرفوع) حدثنا خلاد بن يحيى، قال: حدثنا مسعر، قال: حدثنا محارب بن دثار، عن جابر بن عبد الله، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد، قال مسعر: اراه قال: ضحى، فقال:" صل ركعتين، وكان لي عليه دين فقضاني وزادني".(مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ مِسْعَرٌ: أُرَاهُ قَالَ: ضُحًى، فَقَالَ:" صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي".
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا ہم سے محارب بن دثار نے جابر بن عبداللہ کے واسطہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مسعر نے کہا میرا خیال ہے کہ محارب نے چاشت کا وقت بتایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (پہلے) دو رکعت نماز پڑھ اور میرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا اور زیادہ ہی دیا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I went to the Prophet in the mosque (the sub-narrator Mas`ar thought that Jabir had said, "In the forenoon.") He ordered me to pray two rak`at. He owed me some money and he repaid it to me and gave more than what was due to me.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 434
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عبيد الله، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه، قال:"كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في غزاة، فابطا بي جملي واعيا، فاتى علي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: جابر؟ فقلت: نعم، قال: ما شانك؟ قلت: ابطا علي جملي، واعيا، فتخلفت، فنزل يحجنه بمحجنه، ثم قال: اركب، فركبت، فلقد رايته اكفه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: تزوجت؟ قلت: نعم، قال: بكرا ام ثيبا، قلت: بل ثيبا، قال: افلا جارية تلاعبها وتلاعبك، قلت: إن لي اخوات فاحببت ان اتزوج امراة تجمعهن وتمشطهن وتقوم عليهن، قال: اما إنك قادم، فإذا قدمت فالكيس الكيس، ثم قال: اتبيع جملك؟ قلت: نعم، فاشتراه مني باوقية، ثم قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلي، وقدمت بالغداة، فجئنا إلى المسجد، فوجدته على باب المسجد، قال: آلآن قدمت، قلت: نعم، قال: فدع جملك فادخل فصل ركعتين، فدخلت فصليت، فامر بلالا ان يزن له اوقية، فوزن لي بلال، فارجح لي في الميزان، فانطلقت حتى وليت، فقال: ادع ليجابرا، قلت: الآن يرد علي الجمل، ولم يكن شيء ابغض إلي منه، قال: خذ جملك ولك ثمنه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي وَأَعْيَا، فَأَتَى عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: جَابِرٌ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قُلْتُ: أَبْطَأَ عَلَيَّ جَمَلِي، وَأَعْيَا، فَتَخَلَّفْتُ، فَنَزَلَ يَحْجُنُهُ بِمِحْجَنِهِ، ثُمَّ قَالَ: ارْكَبْ، فَرَكِبْتُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَكُفُّهُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا، قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: أَفَلَا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: أَمَّا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ، ثُمَّ قَالَ: أَتَبِيعُ جَمَلَكَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلِي، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: آلْآنَ قَدِمْتَ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعْ جَمَلَكَ فَادْخُلْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَزِنَ لَهُ أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلَالٌ، فَأَرْجَحَ لِي فِي الْمِيزَانِ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى وَلَّيْتُ، فَقَالَ: ادْعُ لِيجَابِرًا، قُلْتُ: الْآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ، قَالَ: خُذْ جَمَلَكَ وَلَكَ ثَمَنُهُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (ذات الرقاع یا تبوک) میں تھا۔ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا۔ اتنے میں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا جابر! میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حاضر ہوں۔ فرمایا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا ہے، چلتا ہی نہیں اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اپنی سواری سے اترے اور میرے اسی اونٹ کو ایک ٹیرھے منہ کی لکڑی سے کھینچنے لگے (یعنی ہانکنے لگے) اور فرمایا کہ اب سوار ہو جا۔ چنانچہ میں سوار ہو گیا۔ اب تو یہ حال ہوا کہ مجھے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پہنچنے سے روکنا پڑ جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، جابر تو نے شادی بھی کر لی ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں! دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے۔ فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ (جابر بھی کنوارے تھے) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں۔ (اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے) اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں، جو انہیں جمع رکھے۔ ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیر و عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا۔ اس کے بعد فرمایا، کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا جی ہاں! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ چاندی میں خرید لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گئے تھے۔ اور میں دوسرے دن صبح کو پہنچا۔ پھر ہم مسجد آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازہ پر ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کیا ابھی آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فرمایا، پھر اپنا اونٹ چھوڑ دے اور مسجد میں جا کے دو رکعت نماز پڑھ۔ میں اندر گیا اور نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ چاندی تول دے۔ انہوں نے ایک اوقیہ چاندی جھکتی ہوئی تول دی۔ میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جابر کو ذرا بلاؤ۔ میں نے سوچا کہ شاید اب میرا اونٹ پھر مجھے واپس کریں گے۔ حالانکہ اس سے زیادہ ناگوار میرے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ یہ اپنا اونٹ لے جا اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I was with the Prophet in a Ghazwa (Military Expedition) and my camel was slow and exhausted. The Prophet came up to me and said, "O Jabir." I replied, "Yes?" He said, "What is the matter with you?" I replied, "My camel is slow and tired, so I am left behind." So, he got down and poked the camel with his stick and then ordered me to ride. I rode the camel and it became so fast that I had to hold it from going ahead of Allah's Apostle . He then asked me, have you got married?" I replied in the affirmative. He asked, "A virgin or a matron?" I replied, "I married a matron." The Prophet said, "Why have you not married a virgin, so that you may play with her and she may play with you?" Jabir replied, "I have sisters (young in age) so I liked to marry a matron who could collect them all and comb their hair and look after them." The Prophet said, "You will reach, so when you have arrived (at home), I advise you to associate with your wife (that you may have an intelligent son)." Then he asked me, "Would you like to sell your camel?" I replied in the affirmative and the Prophet purchased it for one Uqiya of gold. Allah's Apostle reached before me and I reached in the morning, and when I went to the mosque, I found him at the door of the mosque. He asked me, "Have you arrived just now?" I replied in the affirmative. He said, "Leave your camel and come into (the mosque) and pray two rak`at." I entered and offered the prayer. He told Bilal to weigh and give me one Uqiya of gold. So Bilal weighed for me fairly and I went away. The Prophet sent for me and I thought that he would return to me my camel which I hated more than anything else. But the Prophet said to me, "Take your camel as well as its price."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 310
(مرفوع) حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا ابن جريج، عن عطاء بن ابي رباح وغيره، يزيد بعضهم على بعض، ولم يبلغه كلهم رجل واحد منهم، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه، قال:" كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فكنت على جمل ثفال، إنما هو في آخر القوم، فمر بي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: من هذا؟ قلت: جابر بن عبد الله، قال: ما لك؟ قلت: إني على جمل ثفال، قال: امعك قضيب؟ قلت: نعم، قال: اعطنيه، فاعطيته فضربه فزجره فكان من ذلك المكان من اول القوم، قال: بعنيه، فقلت: بل، هو لك يا رسول الله، قال: بل بعنيه قد اخذته باربعة دنانير، ولك ظهره إلى المدينة، فلما دنونا من المدينة اخذت ارتحل، قال: اين تريد؟ قلت: تزوجت امراة قد خلا منها، قال: فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك، قلت: إن ابي توفي وترك بنات، فاردت ان انكح امراة قد جربت خلا منها، قال: فذلك، فلما قدمنا المدينة، قال: يا بلال اقضه، وزده، فاعطاه اربعة دنانير وزاده قيراطا، قال جابر: لا تفارقني زيادة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يكن القيراط يفارق جراب جابر بن عبد الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرِهِ، يزيد بعضهم على بعض، ولم يبلغه كلهم رجل واحد منهم، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ، إِنَّمَا هُوَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: مَا لَكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ، قَالَ: أَمَعَكَ قَضِيبٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَعْطِنِيهِ، فَأَعْطَيْتُهُ فَضَرَبَهُ فَزَجَرَهُ فَكَانَ مِنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ مِنْ أَوَّلِ الْقَوْمِ، قَالَ: بِعْنِيهِ، فَقُلْتُ: بَلْ، هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ أَخَذْتُ أَرْتَحِلُ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً قَدْ خَلَا مِنْهَا، قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْكِحَ امْرَأَةً قَدْ جَرَّبَتْ خَلَا مِنْهَا، قَالَ: فَذَلِكَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، قَالَ: يَا بِلَالُ اقْضِهِ، وَزِدْهُ، فَأَعْطَاهُ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ وَزَادَهُ قِيرَاطًا، قَالَ جَابِرٌ: لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُنِ الْقِيرَاطُ يُفَارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی (کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھے دیدے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے آگے رہنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کر دے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کر دے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں (دوسری طرف) جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پا چکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال! ان کی قیمت ادا کر دو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قیراط جابر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I was accompanying the Prophet on a journey and was riding a slow camel that was lagging behind the others. The Prophet passed by me and asked, "Who is this?" I replied, "Jabir bin `Abdullah." He asked, "What is the matter, (why are you late)?" I replied, "I am riding a slow camel." He asked, "Do you have a stick?" I replied in the affirmative. He said, "Give it to me." When I gave it to him, he beat the camel and rebuked it. Then that camel surpassed the others thenceforth. The Prophet said, "Sell it to me." I replied, "It is (a gift) for you, O Allah's Apostle." He said, "Sell it to me. I have bought it for four Dinars (gold pieces) and you can keep on riding it till Medina." When we approached Medina, I started going (towards my house). The Prophet said, "Where are you going?" I Sa`d, "I have married a widow." He said, "Why have you not married a virgin to fondle with each other?" I said, "My father died and left daughters, so I decided to marry a widow (an experienced woman) (to look after them)." He said, "Well done." When we reached Medina, Allah's Apostle said, "O Bilal, pay him (the price of the camel) and give him extra money." Bilal gave me four Dinars and one Qirat extra. (A sub-narrator said): Jabir added, "The extra Qirat of Allah's Apostle never parted from me." The Qirat was always in Jabir bin `Abdullah's purse.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 504
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، اخبرنا جرير، عن المغيرة، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" كيف ترى بعيرك، اتبيعنيه؟ قلت: نعم، فبعته إياه، فلما قدم المدينة غدوت إليه بالبعير، فاعطاني ثمنه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ، أَتَبِيعُنِيهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے اونٹ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ کیا تم اسے بیچو گے؟ میں نے کہا ہاں، چنانچہ اونٹ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے۔ تو صبح اونٹ کو لے کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت ادا کر دی۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: While I was in the company of the Prophet in one of his Ghazawat, he asked, "What is wrong with your camel? Will you sell it?" I replied in the affirmative and sold it to him. When he reached Medina, I took the camel to him in the morning and he paid me its price.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 570
(مرفوع) حدثنا مسلم، حدثنا ابو عقيل، حدثنا ابو المتوكل الناجي، قال: اتيت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" دخل النبي صلى الله عليه وسلم المسجد، فدخلت إليه وعقلت الجمل في ناحية البلاط، فقلت: هذا جملك، فخرج، فجعل يطيف بالجمل، قال: الثمن والجمل لك".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيُّ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ وَعَقَلْتُ الْجَمَلَ فِي نَاحِيَةِ الْبَلَاطِ، فَقُلْتُ: هَذَا جَمَلُكَ، فَخَرَجَ، فَجَعَلَ يُطِيفُ بِالْجَمَلِ، قَالَ: الثَّمَنُ وَالْجَمَلُ لَكَ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعقیل نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے بیان کیا کہ میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس لیے میں بھی مسجد کے اندر چلا گیا۔ البتہ اونٹ بلاط کے ایک کنارے پر باندھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کا اونٹ حاضر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اونٹ کے چاروں طرف ٹہلنے لگے۔ پھر فرمایا کہ قیمت بھی لے اور اونٹ بھی لے جا۔
Narrated Jabir: The Prophet entered the Mosque, and I too went there after tying the camel at the pavement of the Mosque. I said (to the Prophet ), "This is your camel." He came out and started examining the camel and said, "Both the camel and its price are for you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 43, Number 650
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن محارب، سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، يقول:" بعت من النبي صلى الله عليه وسلم بعيرا في سفر، فلما اتينا المدينة، قال: ائت المسجد فصل ركعتين فوزن". قال شعبة: اراه فوزن لي فارجح، فما زال معي منها شيء حتى اصابها اهل الشام يوم الحرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَارِبٍ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" بِعْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ، قَالَ: ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ فَوَزَنَ". قَالَ شُعْبَةُ: أُرَاهُ فَوَزَنَ لِي فَأَرْجَحَ، فَمَا زَالَ مَعِي مِنْهَا شَيْءٌ حَتَّى أَصَابَهَا أَهْلُ الشَّأْمِ يَوْمَ الْحَرَّةِ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا محارب بن دثار سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں ایک اونٹ بیچا تھا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وزن کیا۔ شعبہ نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ (جابر رضی اللہ عنہ نے کہا) میرے لیے وزن کیا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بلال رضی اللہ عنہ نے) اور (اس پلڑے کو جس میں سکہ تھا) جھکا دیا۔ (تاکہ مجھے زیادہ ملے) اس میں سے کچھ تھوڑا سا میرے پاس جب سے محفوظ تھا۔ لیکن شام والے (اموی لشکر) یوم حرہ کے موقع پر مجھ سے چھین کر لے گئے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I sold a camel to the Prophet on one of the journeys. When we reached Medina, he ordered me to go to the Mosque and offer two rak`at. Then he weighed for me (the price of the camel in gold) and gave an extra amount over it. A part of it remained with me till it was taken by the army of Sham on the day of Harra."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 775
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: حدثني جابر رضي الله عنه،" انه كان يسير على جمل له قد اعيا، فمر النبي صلى الله عليه وسلم فضربه، فدعا له، فسار بسير ليس يسير مثله، ثم قال: بعنيه بوقية؟ قلت: لا، ثم قال: بعنيه بوقية، فبعته، فاستثنيت حملانه إلى اهلي، فلما قدمنا اتيته بالجمل ونقدني ثمنه، ثم انصرفت، فارسل على إثري، قال: ما كنت لآخذ جملك، فخذ جملك ذلك فهو مالك". قال شعبة: عن مغيرة، عن عامر، عن جابر، افقرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره إلى المدينة. وقال إسحاق: عن جرير، عن مغيرة، فبعته على ان لي فقار ظهره حتى ابلغ المدينة. وقال عطاء، وغيره: لك ظهره إلى المدينة. وقال محمد بن المنكدر: عن جابر، شرط ظهره إلى المدينة. وقال زيد بن اسلم: عن جابر، ولك ظهره حتى ترجع. وقال ابو الزبير: عن جابر، افقرناك ظهره إلى المدينة. وقال الاعمش: عن سالم، عن جابر، تبلغ عليه إلى اهلك. وقال عبيد الله، وابن إسحاق: عن وهب، عن جابر، اشتراه النبي صلى الله عليه وسلم بوقية. وتابعه زيد بن اسلم، عن جابر. وقال ابن جريج: عن عطاء وغيره عن جابر، اخذته باربعة دنانير، وهذا يكون وقية على حساب الدينار بعشرة دراهم، ولم يبين الثمن مغيرة. عن الشعبي، عن جابر، وابن المنكدر، وابو الزبير، عن جابر وقال الاعمش: عن سالم، عن جابر، وقية ذهب. وقال ابو إسحاق: عن سالم، عن جابر بمائتي درهم. وقال داود بن قيس: عن عبيد الله بن مقسم، عن جابر، اشتراه بطريق تبوك، احسبه قال باربع اواق.وقال ابو نضرة: عن جابر اشتراه بعشرين دينارا. وقول الشعبي: بوقية اكثر الاشتراط اكثر واصح عندي. قاله ابو عبد الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَهُ، فَدَعَا لَهُ، فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ؟ قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ، فَبِعْتُهُ، فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَأَرْسَلَ عَلَى إِثْرِي، قَالَ: مَا كُنْتُ لِآخُذَ جَمَلَكَ، فَخُذْ جَمَلَكَ ذَلِكَ فَهُوَ مَالُكَ". قَالَ شُعْبَةُ: عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَفْقَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ إِسْحَاقُ: عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ. وَقَالَ عَطَاءٌ، وَغَيْرُهُ: لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ: عَنْ جَابِرٍ، شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: عَنْ جَابِرٍ، وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَرْجِعَ. وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ، أَفْقَرْنَاكَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ الْأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ، تَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِكَ. وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، وَابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ، اشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقِيَّةٍ. وَتَابَعَهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرٍ. وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ عَطَاءٍ وَغَيْرِهِ عَنْ جَابِرٍ، أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، وَهَذَا يَكُونُ وَقِيَّةً عَلَى حِسَابِ الدِّينَارِ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَلَمْ يُبَيِّنْ الثَّمَنَ مُغِيرَةُ. عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ الْمُنْكَدِرِ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ وَقَالَ الْأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَقِيَّةُ ذَهَبٍ. وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ. وَقَالَ دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ، اشْتَرَاهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ، أَحْسِبُهُ قَالَ بِأَرْبَعِ أَوَاقٍ.وَقَالَ أَبُو نَضْرَةَ: عَنْ جَابِرٍ اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِينَارًا. وَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ: بِوَقِيَّةٍ أَكْثَرُ الِاشْتِرَاطُ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ عِنْدِي. قَالَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عامر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ (ایک غزوہ کے موقع پر) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے، اونٹ تھک گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچ دیا، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ پھر جب ہم (مدینہ) پہنچ گئے، تو میں نے اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا (میں حاضر ہوا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ، یہ تمہارا ہی مال ہے۔ (اور قیمت واپس نہیں لی) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عامر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ (جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا۔ عطاء وغیرہ نے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے۔ محمد بن منکدر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی۔ زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی تھی۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہو کے جاؤ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں خریدا تھا۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے۔ ابن جریج نے عطاء وغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے، چار دینار کا ایک اوقیہ ہو گا۔ مغیرہ نے شعبی کے واسطہ سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے (ان کی روایت میں اور) اسی طرح ابن المنکدر اور ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اعمش نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں ایک اوقیہ سونے کی وضاحت کی ہے۔ ابواسحاق نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں اور داود بن قیس نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ تبوک کے راستے میں (غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے) خریدا تھا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ چار اوقیہ میں (خریدا تھا) ابونضرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت میں بیان کیا کہ بیس دینار میں خریدا تھا۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوقیہ ہی زیادہ روایتوں میں ہے۔ اسی طرح شرط لگانا بھی زیادہ روایتوں سے ثابت ہے اور میرے نزدیک صحیح بھی یہی ہے، یہ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا۔
Narrated Jabir: While I was riding a (slow) and tired camel, the Prophet passed by and beat it and prayed for Allah's Blessings for it. The camel became so fast as it had never been before. The Prophet then said, "Sell it to me for one Uqiyya (of gold)." I said, "No." He again said, "Sell it to me for one Uqiyya (of gold)." I sold it and stipulated that I should ride it to my house. When we reached (Medina) I took that camel to the Prophet and he gave me its price. I returned home but he sent for me (and when I went to him) he said, "I will not take your camel. Take your camel as a gift for you." (Various narrations are mentioned here with slight variations in expressions relating the condition that Jabir had the right to ride the sold camel up to Medina).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 879
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، اخبرنا جرير، عن المغيرة، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فتلاحق بي النبي صلى الله عليه وسلم وانا على ناضح لنا قد اعيا فلا يكاد يسير، فقال لي: ما لبعيرك، قال: قلت: عيي، قال: فتخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فزجره ودعا له فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير، فقال لي:" كيف ترى بعيرك؟، قال: قلت: بخير قد اصابته بركتك، قال: افتبيعنيه، قال: فاستحييت ولم يكن لنا ناضح غيره، قال: فقلت: نعم، قال: فبعنيه فبعته إياه على ان لي فقار ظهره حتى ابلغ المدينة، قال: فقلت يا رسول الله، إني عروس فاستاذنته فاذن لي، فتقدمت الناس إلى المدينة حتى اتيت المدينة فلقيني خالي فسالني عن البعير، فاخبرته بما صنعت فيه فلامني، قال: وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لي: حين استاذنته، هل تزوجت بكرا ام ثيبا؟ فقلت: تزوجت ثيبا، فقال: هلا تزوجت بكرا تلاعبها وتلاعبك، قلت: يا رسول الله توفي والدي او استشهد ولي اخوات صغار فكرهت ان اتزوج مثلهن فلا تؤدبهن، ولا تقوم عليهن فتزوجت ثيبا لتقوم عليهن وتؤدبهن، قال: فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة غدوت عليه بالبعير، فاعطاني ثمنه ورده علي، قال المغيرة: هذا في قضائنا حسن لا نرى به باسا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَلَاحَقَ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ لَنَا قَدْ أَعْيَا فَلَا يَكَادُ يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: مَا لِبَعِيرِكَ، قَالَ: قُلْتُ: عَيِيَ، قَالَ: فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ، فَقَالَ لِي:" كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ، قَالَ: أَفَتَبِيعُنِيهِ، قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي، فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيَنِي خَالِي فَسَأَلَنِي عَنِ الْبَعِيرِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ فَلَامَنِي، قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي: حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ، هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا، فَقَالَ: هَلَّا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوِ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ فَلَا تُؤَدِّبُهُنَّ، وَلَا تَقُومُ عَلَيْهِنَّ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لَا نَرَى بِهِ بَأْسًا".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (جنگ تبوک) میں شریک تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے آ کر میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنے پانی لادنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا۔ چونکہ وہ تھک چکا تھا، اس لیے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ جابر! تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تھک گیا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی۔ پھر تو وہ برابر دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اپنے اونٹ کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ اب اچھا ہے۔ آپ کی برکت سے ایسا ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا اسے بیچو گے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں شرمندہ ہو گیا، کیونکہ ہمارے پاس پانی لانے کو اس کے سوا اور کوئی اونٹ نہیں رہا تھا۔ مگر میں نے عرض کیا، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر بیچ دے۔ چنانچہ میں نے وہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا اور یہ طے پایا کہ مدینہ تک میں اسی پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (آگے بڑھ کر اپنے گھر جانے کی) اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عنایت فرما دی۔ اس لیے میں سب سے پہلے مدینہ پہنچ آیا۔ جب ماموں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے اونٹ کے متعلق پوچھا۔ جو معاملہ میں کر چکا تھا اس کی انہیں اطلاع دی۔ تو انہوں نے مجھے برا بھلا کہا۔ (ایک اونٹ تھا تیرے پاس وہ بھی بیچ ڈالا اب پانی کس پر لائے گا) جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا تھا بیوہ سے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی، وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے۔ (کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ بھی ابھی کنوارے تھے) میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے باپ کی وفات ہو گئی ہے یا (یہ کہا کہ) وہ (احد) میں شہید ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں۔ اس لیے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ انہیں جیسی کسی لڑکی کو بیاہ کے لاؤں، جو نہ انہیں ادب سکھا سکے نہ ان کی نگرانی کر سکے۔ اس لیے میں نے بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی نگرانی کرے اور انہیں ادب سکھائے۔ انہوں نے بیان کیا، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صبح کے وقت میں اسی اونٹ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس اونٹ کی قیمت عطا فرمائی اور پھر وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ مغیرہ راوی رحمہ اللہ نے کہا کہ ہمارے نزدیک بیع میں یہ شرط لگانا اچھا ہے کچھ برا نہیں۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I participated in a Ghazwa along with Allah's Apostle The Prophet met me (on the way) while I was riding a camel of ours used for irrigation and it had got so tired that it could hardly walk. The Prophet asked me, "What is wrong with the camel?" I replied, "It has got tired." So. Allah's Apostle came from behind it and rebuked it and prayed for it so it started surpassing the other camels and going ahead of them. Then he asked me, "How do you find your camel (now)?" I replied, "I find it quite well, now as it has received your blessings." He said, "Will you sell it to me?" I felt shy (to refuse his offer) though it was the only camel for irrigation we had. So, I said, "Yes." He said, "Sell it to me then." I sold it to him on the condition that I should keep on riding it till I reached Medina. Then I said, "O Allah's Apostle! I am a bridegroom," and requested him to allow me to go home. He allowed me, and I set out for Medina before the people till I reached Medina, where I met my uncle, who asked me about the camel and I informed him all about it and he blamed me for that. When I took the permission of Allah's Apostle he asked me whether I had married a virgin or a matron and I replied that I had married a matron. He said, "Why hadn't you married a virgin who would have played with you, and you would have played with her?" I replied, "O Allah's Apostle! My father died (or was martyred) and I have some young sisters, so I felt it not proper that I should marry a young girl like them who would neither teach them manners nor serve them. So, I have married a matron so that she may serve them and teach them manners." When Allah's Apostle arrived in Medina, I took the camel to him the next morning and he gave me its price and gave me the camel itself as well.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 211
(مرفوع) حدثني محمد، اخبرنا وكيع، عن شعبة، عن محارب بن دثار، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة نحر جزورا او بقرة" زاد معاذ، عن شعبة، عن محارب سمع جابر بن عبد الله" اشترى مني النبي صلى الله عليه وسلم بعيرا بوقيتين ودرهم او درهمين فلما قدم صرارا امر ببقرة فذبحت فاكلوا منها، فلما قدم المدينة امرني ان آتي المسجد فاصلي ركعتين، ووزن لي ثمن البعير".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ نَحَرَ جَزُورًا أَوْ بَقَرَةً" زَادَ مُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَارِبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ" اشْتَرَى مِنِّي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا بِوَقِيَّتَيْنِ وَدِرْهَمٍ أَوْ دِرْهَمَيْنِ فَلَمَّا قَدِمَ صِرَارًا أَمَرَ بِبَقَرَةٍ فَذُبِحَتْ فَأَكَلُوا مِنْهَا، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ أَمَرَنِي أَنْ آتِيَ الْمَسْجِدَ فَأُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَوَزَنَ لِي ثَمَنَ الْبَعِيرِ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو وکیع نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں محارب بن دثار نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے (غزوہ تبوک یا ذات الرقاع سے) تو اونٹ یا گائے ذبح کی (راوی کو شبہ ہے) معاذ عنبری نے (اپنی روایت میں) کچھ زیادتی کے ساتھ کہا۔ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے محارب بن دثار نے ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ خریدا تھا۔ دو اوقیہ اور ایک درہم یا (راوی کو شبہ ہے کہ دو اوقیہ) دو درہم میں۔ جب آپ مقام صرار پر پہنچے تو آپ نے حکم دیا اور گائے ذبح کی گئی اور لوگوں نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو مجھے حکم دیا کہ پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھوں ‘ اس کے بعد مجھے میرے اونٹ کی قیمت وزن کر کے عنایت فرمائی۔
Narrated Muharib bin Dithar: Jabir bin `Abdullah said, "When Allah's Apostle arrived at Medina, he slaughtered a camel or a cow." Jabir added, "The Prophet bought a camel from me for two Uqiyas (of gold) and one or two Dirhams. When he reached Sirar, he ordered that a cow be slaughtered and they ate its meat. When he arrived at Medina, he ordered me to go to the Mosque and offer two rak`at, and weighed (and gave) me the price of the camel."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 322
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا هشيم، حدثنا سيار، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله، قال:" قفلنا مع النبي صلى الله عليه وسلم من غزوة فتعجلت على بعير لي قطوف، فلحقني راكب من خلفي فنخس بعيري بعنزة كانت معه، فانطلق بعيري كاجود ما انت راء من الإبل، فإذا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ما يعجلك؟ قلت: كنت حديث عهد بعرس، قال: بكرا ام ثيبا، قلت: ثيبا، قال: فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك، قال: فلما ذهبنا لندخل، قال: امهلوا حتى تدخلوا ليلا اي عشاء لكي تمتشط الشعثة وتستحد المغيبة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" قَفَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةٍ فَتَعَجَّلْتُ عَلَى بَعِيرٍ لِي قَطُوفٍ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ مِنْ خَلْفِي فَنَخَسَ بَعِيرِي بِعَنَزَةٍ كَانَتْ مَعَهُ، فَانْطَلَقَ بَعِيرِي كَأَجْوَدِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ الْإِبِلِ، فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا يُعْجِلُكَ؟ قُلْتُ: كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِعُرُسٍ، قَالَ: بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا، قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ، قَالَ: أَمْهِلُوا حَتَّى تَدْخُلُوا لَيْلًا أَيْ عِشَاءً لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سیار بن ابی سیار نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد سے واپس ہو رہے تھے۔ میں اپنے اونٹ کو، جو سست تھا تیز چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں میرے پیچھے سے ایک سوار مجھ سے آ کر ملا اور اپنا نیزہ میرے اونٹ کو چبھو دیا۔ اس کی وجہ سے میرا اونٹ تیز چل پڑا جیسا کہ کسی عمدہ قسم کے اونٹ کی چال تم نے دیکھی ہو گی۔ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا جلدی کیوں کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا ابھی میری شادی نئی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کسی کنواری سے کیوں نہ کی تم اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کرتی۔ بیان کیا کہ پھر جب ہم مدینہ میں داخل ہونے والے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ اور رات ہو جائے تب داخل ہو تاکہ پریشان بالوں والی کنگھا کر لیوے اور جن کے شوہر موجود نہیں تھے وہ اپنے بال صاف کر لیں۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: While we were returning from a Ghazwa (Holy Battle) with the Prophet, I started driving my camel fast, as it was a lazy camel A rider came behind me and pricked my camel with a spear he had with him, and then my camel started running as fast as the best camel you may see. Behold! The rider was the Prophet himself. He said, 'What makes you in such a hurry?" I replied, I am newly married " He said, "Did you marry a virgin or a matron? I replied, "A matron." He said, "Why didn't you marry a young girl so that you may play with her and she with you?" When we were about to enter (Medina), the Prophet said, "Wait so that you may enter (Medina) at night so that the lady of unkempt hair may comb her hair and the one whose husband has been absent may shave her pubic region.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 16
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا محارب، قال: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، يقول: تزوجت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما تزوجت؟ فقلت: تزوجت ثيبا، فقال: ما لك وللعذارى ولعابها، فذكرت ذلك لعمرو بن دينار، فقال عمرو: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هلا جارية تلاعبها وتلاعبك".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَارِبٌ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: تَزَوَّجْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَزَوَّجْتَ؟ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلِلْعَذَارَى وَلِعَابِهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، فَقَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے عرض کیا کہ میں نے شادی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کس سے شادی کی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک عورت سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کنواری سے کیوں نہ کی کہ اس کے ساتھ تم کھیل کود کرتے۔ محارب نے کہا کہ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عمرو بن دینار سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ہے۔ مجھ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس طرح بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے کسی کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: When I got married, Allah's Apostle said to me, "What type of lady have you married?" I replied, "I have married a matron' He said, "Why, don't you have a liking for the virgins and for fondling them?" Jabir also said: Allah's Apostle said, "Why didn't you marry a young girl so that you might play with her and she with you?'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 17
(مرفوع) حدثنا مسدد، عن هشيم، عن سيار، عن الشعبي، عن جابر، قال:" كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، فلما قفلنا تعجلت على بعير قطوف، فلحقني راكب من خلفي، فالتفت فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ما يعجلك؟ قلت: إني حديث عهد بعرس، قال: فبكرا تزوجت ام ثيبا؟ قلت: بل ثيبا، قال: فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك، قال: فلما قدمنا ذهبنا لندخل، فقال: امهلوا حتى تدخلوا ليلا اي عشاء لكي تمتشط الشعثة وتستحد المغيبة"، قال: وحدثني الثقة، انه قال في هذا الحديث: الكيس الكيس يا جابر يعني الولد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَلَمَّا قَفَلْنَا تَعَجَّلْتُ عَلَى بَعِيرٍ قَطُوفٍ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ مِنْ خَلْفِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا يُعْجِلُكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ: فَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا؟ قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ، فَقَالَ: أَمْهِلُوا حَتَّى تَدْخُلُوا لَيْلًا أَيْ عِشَاءً لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ"، قَالَ: وَحَدَّثَنِي الثِّقَةُ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: الْكَيْسَ الْكَيْسَ يَا جَابِرُ يَعْنِي الْوَلَدَ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے ہشیم بن بشیر نے، ان سے سیار بن دروان نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد (غزوہ تبوک) میں تھا، جب ہم واپس ہو رہے تھے تو میں اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں میرے پیچھے سے ایک سوار میرے قریب آئے۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلدی کیوں کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کنواری عورت سے تم نے شادی کی یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا، کنواری سے کیوں نہ کی؟ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ جابر نے بیان کیا کہ پھر جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم نے چاہا کہ شہر میں داخل ہو جائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ رات ہو جائے پھر داخل ہونا تاکہ تمہاری بیویاں جو پراگندہ بال ہیں وہ کنگھی چوٹی کر لیں اور جن کے خاوند غائب تھے وہ موئے زیر ناف صاف کر لیں۔ ہشیم نے بیان کیا کہ مجھ سے ایک معتبر راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ «الكيس، الكيس» یعنی اے جابر! جب تو گھر پہنچے تو خوب خوب «كيس» کیجؤ (امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) «كيس» کا مطلب ہے کہ اولاد ہونے کی خواہش کیجؤ۔
Narrated Jabir: I was with Allah's Apostle in a Ghazwa, and when we returned, I wanted to hurry, while riding a slow camel. A rider came behind me. I looked back and saw that the rider was Allah's Apostle . He said (to me), "What makes you in such a hurry?" I replied, "I am newly married." He said, "Did you marry a virgin or a matron?" I replied, "(Not a virgin but) a matron." He said, "Why didn't you marry a young girl with whom you could play and who could play with you?" Then when we approached (Medina) and were going to enter (it), the Prophet said, "Wait till you enter (your homes) at night (in the first part of the night) so that the ladies with unkempt hair may comb their hair, and those whose husbands have been absent (for a long time) may shave their pubic hair." (The sub-narrator, Hashim said: A reliable narrator told me that the Prophet added in this Hadith: "(Seek to beget) children! Children, O Jabir!")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 172
(مرفوع) حدثني يعقوب بن إبراهيم، حدثنا هشيم، اخبرنا سيار، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله، قال:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة، فلما قفلنا كنا قريبا من المدينة تعجلت على بعير لي قطوف، فلحقني راكب من خلفي فنخس بعيري بعنزة كانت معه فسار بعيري كاحسن ما انت راء من الإبل، فالتفت فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني حديث عهد بعرس، قال: اتزوجت؟ قلت: نعم، قال: ابكرا ام ثيبا؟ قال: قلت: بل ثيبا، قال: فهلا بكرا تلاعبها وتلاعبك، قال: فلما قدمنا ذهبنا لندخل، فقال: امهلوا حتى تدخلوا ليلا اي عشاء لكي تمتشط الشعثة وتستحد المغيبة".(مرفوع) حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَلَمَّا قَفَلْنَا كُنَّا قَرِيبًا مِنْ الْمَدِينَةِ تَعَجَّلْتُ عَلَى بَعِيرٍ لِي قَطُوفٍ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ مِنْ خَلْفِي فَنَخَسَ بَعِيرِي بِعَنَزَةٍ كَانَتْ مَعَهُ فَسَارَ بَعِيرِي كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ الْإِبِلِ، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ: أَتَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ، فَقَالَ: أَمْهِلُوا حَتَّى تَدْخُلُوا لَيْلًا أَيْ عِشَاءً لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ".
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو سیار نے خبر دی، انہیں شعبی نے، انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھے۔ واپس ہوتے ہوئے جب ہم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو میں نے اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے لگا۔ ایک صاحب نے پیچھے سے میرے قریب پہنچ کر میرے اونٹ کو ایک چھڑی سے جو ان کے پاس تھی، مارا۔ اس سے اونٹ بڑی اچھی چال چلنے لگا، جیسا کہ تم نے اچھے اونٹوں کو چلتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری نئی شادی ہوئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پوچھا، کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری سے کیوں نہ کی؟ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ بیان کیا کہ پھر جب ہم مدینہ پہنچے تو شہر میں داخل ہونے لگے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ رات ہو جائے پھر داخل ہونا تاکہ پراگندہ بال عورت چوٹی کنگھا کر لے اور جس کا شوہر موجود نہ رہا ہو وہ موئے زیر ناف صاف کر لے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: We were with the Prophet in Ghazwa, and when we returned and approached Medina, I wanted to hurry while riding a slow camel. A rider overtook me and pricked my camel with a spear which he had, whereupon my camel started running as fast as any other fast camel you may see. I looked back, and behold, the rider was Allah's Apostle . I said, "O Allah's Apostle! I am newly married " He asked, "Have you got married?" I replied, "Yes." He said, "A virgin or a matron?" I replied, "(Not a virgin) but a matron" He said, "Why didn't you marry a young girl so that you could play with her and she with you?" When we reached (near Medina) and were going to enter it, the Prophet said, "Wait till you enter your home early in the night so that the lady whose hair is unkempt may comb her hair and that the lady whose husband has been away may shave her pubic hair."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 174
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" هلك ابي وترك سبع بنات او تسع بنات، فتزوجت امراة ثيبا، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: تزوجت يا جابر؟ فقلت: نعم، فقال: بكرا ام ثيبا؟ قلت: بل ثيبا، قال: فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك وتضاحكها وتضاحكك؟ قال: فقلت له إن عبد الله هلك وترك بنات وإني كرهت ان اجيئهن بمثلهن، فتزوجت امراة تقوم عليهن وتصلحهن، فقال: بارك الله لك، او قال: خيرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" هَلَكَ أَبِي وَتَرَكَ سَبْعَ بَنَاتٍ أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً ثَيِّبًا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ وَتُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ هَلَكَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً تَقُومُ عَلَيْهِنَّ وَتُصْلِحُهُنَّ، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْ قَالَ: خَيْرًا".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ میرے والد شہید ہو گئے اور انہوں نے سات لڑکیاں چھوڑیں یا (راوی نے کہا کہ) نو لڑکیاں۔ چنانچہ میں نے ایک پہلے کی شادی شدہ عورت سے نکاح کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ جابر! تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا، کنواری سے یا بیاہی سے۔ میں نے عرض کیا کہ بیاہی سے۔ فرمایا تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی۔ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ تم اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور وہ تمہارے ساتھ ہنسی کرتی۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ عبداللہ (میرے والد) شہید ہو گئے اور انہوں نے کئی لڑکیاں چھوڑی ہیں، اس لیے میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان کے پاس ان ہی جیسی لڑکی بیاہ لاؤں، اس لیے میں نے ایک ایسی عورت سے شادی کی ہے جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی اصلاح کا خیال رکھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت دے یا (راوی کو شک تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «خيرا.» فرمایا یعنی اللہ تم کو خیر عطا کرے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: My father died and left seven or nine girls and I married a matron. Allah's Apostle said to me, "O Jabir! Have you married?" I said, "Yes." He said, "A virgin or a matron?" I replied, "A matron." he said, "Why not a virgin, so that you might play with her and she with you, and you might amuse her and she amuse you." I said, " `Abdullah (my father) died and left girls, and I dislike to marry a girl like them, so I married a lady (matron) so that she may look after them." On that he said, "May Allah bless you," or "That is good."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 64, Number 280
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو، عن جابر رضي الله عنه، قال: هلك ابي وترك سبع، او تسع بنات، فتزوجت امراة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تزوجت يا جابر"، قلت: نعم، قال:" بكرا ام ثيبا"، قلت: ثيبا، قال:" هلا جارية تلاعبها وتلاعبك، او تضاحكها وتضاحكك"، قلت: هلك ابي، فترك سبع او تسع بنات، فكرهت ان اجيئهن بمثلهن، فتزوجت امراة تقوم عليهن، قال:" فبارك الله عليك"، لم يقل ابن عيينة، ومحمد بن مسلم، عن عمرو: بارك الله عليك.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: هَلَكَ أَبِي وَتَرَكَ سَبْعَ، أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا"، قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ:" هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، أَوْ تُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ"، قُلْتُ: هَلَكَ أَبِي، فَتَرَكَ سَبْعَ أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ:" فَبَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكَ"، لَمْ يَقُلْ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو: بَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكَ.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی تھیں (راوی کو تعداد میں شبہ تھا) پھر میں نے ایک عورت سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جابر کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا بیاہی سے۔ فرمایا، کسی لڑکی (کنواری) سے کیوں نہ کی۔ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی۔ میں نے عرض کی، میرے والد (عبداللہ) شہید ہوئے اور سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ میں ان کے پاس انہی جیسی لڑکی لاؤں۔ چنانچہ میں نے ایسی عورت سے شادی کی جو ان کی نگرانی کر سکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے۔ ابن عیینہ اور محمد بن مسلمہ نے عمرو سے روایت میں ”اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے“ کے الفاظ نہیں کہے۔
Narrated Jabir: My father died and left behind seven or nine daughters, and I married a woman. The Prophet said, "Did you get married, O Jabir?" I replied, "Yes." He asked, "Is she a virgin or a matron?" I replied, "She is a matron." He said, "Why didn't you marry a virgin girl so that you might play with her and she with you (or, you might make her laugh and she make you laugh)?" I said, "My father died, leaving seven or nine girls (orphans) and I did not like to bring a young girl like them, so I married a woman who can look after them." He said, "May Allah bestow His Blessing on you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 75, Number 396