صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
The Book of Al-Jizya and The Stoppage of War
3. بَابُ الْوَصَايَا بِأَهْلِ ذِمَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
3. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کافروں کو امان دی (اپنے ذمہ میں لیا) ان کے امان کو قائم رکھنے کی وصیت کرنا۔
(3) Chapter. The advice to take care of non-Muslims who have a covenant of Allah’s Messenger (p.b.u.h).
حدیث نمبر: 3162
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم بن ابي إياس حدثنا شعبة، حدثنا ابو جمرة، قال: سمعت جويرية بن قدامة التميمي، قال: سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه" قلنا اوصنا يا امير المؤمنين، قال: اوصيكم بذمة الله فإنه ذمة نبيكم، ورزق عيالكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُوَيْرِيَةَ بْنَ قُدَامَةَ التَّمِيمِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" قُلْنَا أَوْصِنَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: أُوصِيكُمْ بِذِمَّةِ اللَّهِ فَإِنَّهُ ذِمَّةُ نَبِيِّكُمْ، وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جویریہ بن قدامہ تمیمی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، (جب وہ زخمی ہوئے) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے! تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی (جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں (کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا) کیونکہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ ہے اور تمہارے گھر والوں کی روزی ہے (کہ جزیہ کے روپیہ سے تمہارے بال بچوں کی گزران ہوتی ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Juwairiya bin Qudama at-Tamimi: We said to `Umar bin Al-Khattab, Jo Chief of the believers! Advise us." He said, "I advise you to fulfill Allah's Convention (made with the Dhimmis) as it is the convention of your Prophet and the source of the livelihood of your dependents (i.e. the taxes from the Dhimmis.) "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 388

حدیث نمبر: 1392
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير بن عبد الحميد، حدثنا حصين بن عبد الرحمن، عن عمرو بن ميمون الاودي , قال: رايت عمر بن الخطاب رضي الله عنه , قال: يا عبد الله بن عمر اذهب إلى ام المؤمنين عائشة رضي الله عنها , فقل: يقرا عمر بن الخطاب عليك السلام، ثم سلها ان ادفن مع صاحبي، قالت: كنت اريده لنفسي فلاوثرنه اليوم على نفسي، فلما اقبل , قال له: ما لديك؟ , قال: اذنت لك يا امير المؤمنين، قال: ما كان شيء اهم إلي من ذلك المضجع، فإذا قبضت فاحملوني، ثم سلموا، ثم قل: يستاذن عمر بن الخطاب، فإن اذنت لي فادفنوني، وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين، إني لا اعلم احدا احق بهذا الامر من هؤلاء النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فمن استخلفوا بعدي فهو الخليفة فاسمعوا له واطيعوا، فسمى عثمان، وعليا، وطلحة , والزبير، وعبد الرحمن بن عوف، وسعد بن ابي وقاص، وولج عليه شاب من الانصار , فقال: ابشر يا امير المؤمنين ببشرى الله كان لك من القدم في الإسلام ما قد علمت، ثم استخلفت فعدلت، ثم الشهادة بعد هذا كله، فقال: ليتني يا ابن اخي، وذلك كفافا لا علي ولا لي اوصي الخليفة من بعدي بالمهاجرين الاولين خيرا ان يعرف لهم حقهم وان يحفظ لهم حرمتهم، واوصيه بالانصار خيرا الذين تبوءوا الدار والإيمان ان يقبل من محسنهم ويعفى عن مسيئهم، واوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم ان يوفى لهم بعهدهم، وان يقاتل من ورائهم وان لا يكلفوا فوق طاقتهم".(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ , قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , فَقُلْ: يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ، قَالَتْ: كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي، فَلَمَّا أَقْبَلَ , قَالَ لَهُ: مَا لَدَيْكَ؟ , قَالَ: أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي، ثُمَّ سَلِّمُوا، ثُمَّ قُلْ: يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي، وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَمَنِ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، فَسَمَّى عُثْمَانَ، وَعَلِيًّا، وَطَلْحَةَ , وَالزُّبَيْرَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ , فَقَالَ: أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنَ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ، ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ، ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ، فَقَالَ: لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي، وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ، وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ، وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہو جائے تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کر دینا ‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ میں اس امر خلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں ‘ خلیفہ وہی ہو گا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر عثمان ‘ علی ‘ طلحہ ‘ زبیر ‘ عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو ‘ اللہ عزوجل کی طرف سے ‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاو رکھے ‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاو رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ (میری وصیت ہے کہ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے (یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کر لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Amr bin Maimun Al-Audi: I saw `Umar bin Al-Khattab (when he was stabbed) saying, "O `Abdullah bin `Umar! Go to the mother of the believers Aisha and say, `Umar bin Al-Khattab sends his greetings to you,' and request her to allow me to be buried with my companions." (So, Ibn `Umar conveyed the message to `Aisha.) She said, "I had the idea of having this place for myself but today I prefer him (`Umar) to myself (and allow him to be buried there)." When `Abdullah bin `Umar returned, `Umar asked him, "What (news) do you have?" He replied, "O chief of the believers! She has allowed you (to be buried there)." On that `Umar said, "Nothing was more important to me than to be buried in that (sacred) place. So, when I expire, carry me there and pay my greetings to her (`Aisha ) and say, `Umar bin Al-Khattab asks permission; and if she gives permission, then bury me (there) and if she does not, then take me to the graveyard of the Muslims. I do not think any person has more right for the caliphate than those with whom Allah's Apostle (p.b.u.h) was always pleased till his death. And whoever is chosen by the people after me will be the caliph, and you people must listen to him and obey him," and then he mentioned the name of `Uthman, `Ali, Talha, Az-Zubair, `Abdur-Rahman bin `Auf and Sa`d bin Abi Waqqas. By this time a young man from Ansar came and said, "O chief of the believers! Be happy with Allah's glad tidings. The grade which you have in Islam is known to you, then you became the caliph and you ruled with justice and then you have been awarded martyrdom after all this." `Umar replied, "O son of my brother! Would that all that privileges will counterbalance (my short comings), so that I neither lose nor gain anything. I recommend my successor to be good to the early emigrants and realize their rights and to protect their honor and sacred things. And I also recommend him to be good to the Ansar who before them, had homes (in Medina) and had adopted the Faith. He should accept the good of the righteous among them and should excuse their wrongdoers. I recommend him to abide by the rules and regulations concerning the Dhimmis (protectees) of Allah and His Apostle, to fulfill their contracts completely and fight for them and not to tax (overburden) them beyond their capabilities."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 475


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.