195. باب: ذمی یا مسلمان عورتوں کے ضرورت کے وقت بال دیکھنا درست ہے اس طرح ان کا ننگا کرنا بھی جب وہ اللہ کی نافرمانی کریں۔
(195) Chapter. (It is permissible for a man) to look in (or search) the hair of the Dhimmi women (i.e., non-Muslims living under the protection of Muslims) and that of the lady-believers if they disobey Allah, and to compel them to take off their clothes if there is necessity.
(مرفوع) حدثني محمد بن عبد الله بن حوشب الطائفي، حدثنا هشيم، اخبرنا حصين، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن، وكان عثمانيا، فقال: لابن عطية وكان علويا إني لاعلم ما الذي جرا صاحبك على الدماء سمعته يقول: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم والزبير، فقال:" ائتوا روضة كذا وتجدون بها امراة اعطاها حاطب كتابا، فاتينا الروضة فقلنا الكتاب، قالت: لم يعطني فقلنا لتخرجن او لاجردنك، فاخرجت من حجزتها فارسل إلى حاطب، فقال: لا تعجل والله ما كفرت ولا ازددت للإسلام إلا حبا ولم يكن احد من اصحابك إلا وله بمكة من يدفع الله به عن اهله وماله، ولم يكن لي احد فاحببت ان اتخذ عندهم يدا فصدقه النبي صلى الله عليه وسلم قال عمر: دعني اضرب عنقه فإنه قد نافق، فقال: ما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فهذا الذي جراه".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ الطَّائِفِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ عُثْمَانِيًّا، فَقَالَ: لِابْنِ عَطِيَّةَ وَكَانَ عَلَوِيًّا إِنِّي لَأَعْلَمُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ، فَقَالَ:" ائْتُوا رَوْضَةَ كَذَا وَتَجِدُونَ بِهَا امْرَأَةً أَعْطَاهَا حَاطِبٌ كِتَابًا، فَأَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَقُلْنَا الْكِتَابَ، قَالَتْ: لَمْ يُعْطِنِي فَقُلْنَا لَتُخْرِجِنَّ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، فَأَخْرَجَتْ مِنْ حُجْزَتِهَا فَأَرْسَلَ إِلَى حَاطِبٍ، فَقَالَ: لَا تَعْجَلْ وَاللَّهِ مَا كَفَرْتُ وَلَا ازْدَدْتُ لِلْإِسْلَامِ إِلَّا حُبًّا وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا وَلَهُ بِمَكَّةَ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، وَلَمْ يَكُنْ لِي أَحَدٌ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا فَصَدَّقَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ: دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ فَإِنَّهُ قَدْ نَافَقَ، فَقَالَ: مَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَهَذَا الَّذِي جَرَّأَهُ".
مجھ سے محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی نے بیان کیا ‘ ان سے ہشیم نے بیان کیا ‘ انہیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن عبیدہ نے اور انہیں ابی عبدالرحمٰن نے اور وہ عثمانی تھے ‘ انہوں نے عطیہ سے کہا ‘ جو علوی تھے ‘ کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب (علی رضی اللہ عنہ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی ‘ میں نے خود ان سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا۔ اور ہدایت فرمائی کہ روضہ خاخ پر جب تم پہنچو ‘ تو انہیں ایک عورت (سارہ نامی) ملے گی۔ جسے حاطب ابن بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط دے کر بھیجا ہے (تم وہ خط اس سے لے کر آؤ) چنانچہ جب ہم اس باغ تک پہنچے ہم نے اس عورت سے کہا خط لا۔ اس نے کہا کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے مجھے کوئی خط نہیں دیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط خود بخود نکال کر دیدے ورنہ (تلاشی کے لیے) تمہارے کپڑے اتار لیے جائیں گے۔ تب کہیں اس نے خط اپنے نیفے میں سے نکال کر دیا۔ (جب ہم نے وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ‘ تو) آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا انہوں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں! اللہ کی قسم! میں نے نہ کفر کیا ہے اور نہ میں اسلام سے ہٹا ہوں ‘ صرف اپنے خاندان کی محبت نے اس پر مجبور کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (مہاجرین) میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے رشتہ دار وغیرہ مکہ میں نہ ہوں۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان والوں اور ان کی جائیداد کی حفاظت نہ کراتا ہو۔ لیکن میرا وہاں کوئی بھی آدمی نہیں ‘ اس لیے میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر ایک احسان کر دوں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی بات کی تصدیق فرمائی۔ عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے مجھے اس کا سر اتارنے دیجئیے یہ تو منافق ہو گیا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا معلوم! اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف تھا اور وہ خود اہل بدر کے بارے میں فرما چکا ہے کہ ”جو چاہو کرو۔ “ ابوعبدالرحمٰن نے کہا، علی رضی اللہ عنہ کو اسی ارشاد نے (کہ تم جو چاہو کرو، خون ریزی پر) دلیر بنا دیا ہے۔
Narrated Sa`d bin 'Ubaida: Abu `Abdur-Rahman who was one of the supporters of `Uthman said to Abu Talha who was one of the supporters of `Ali, "I perfectly know what encouraged your leader (i.e. `Ali) to shed blood. I heard him saying: Once the Prophet sent me and Az-Zubair saying, 'Proceed to such-and-such Ar-Roudah (place) where you will find a lady whom Hatib has given a letter. So when we arrived at Ar-Roudah, we requested the lady to hand over the letter to us. She said, 'Hatib has not given me any letter.' We said to her. 'Take out the letter or else we will strip off your clothes.' So she took it out of her braid. So the Prophet sent for Hatib, (who came) and said, 'Don't hurry in judging me, for, by Allah, I have not become a disbeliever, and my love to Islam is increasing. (The reason for writing this letter was) that there is none of your companions but has relatives in Mecca who look after their families and property, while I have nobody there, so I wanted to do them some favor (so that they might look after my family and property).' The Prophet believed him. `Umar said, 'Allow me to chop off his (i.e. Hatib's) neck as he has done hypocrisy.' The Prophet said, (to `Umar), 'Who knows, perhaps Allah has looked at the warriors of Badr and said (to them), 'Do whatever you like, for I have forgiven you.' " `Abdur-Rahman added, "So this is what encouraged him (i.e. `Ali).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 314
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار سمعته منه مرتين، قال: اخبرني حسن بن محمد، قال: اخبرني عبيد الله بن ابي رافع، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد بن الاسود، قال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة ومعها كتاب فخذوه منها فانطلقنا تعادى بنا خيلنا حتى انتهينا إلى الروضة، فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لنلقين الثياب فاخرجته من عقاصها، فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى اناس من المشركين من اهل مكة يخبرهم ببعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا حاطب ما هذا، قال: يا رسول الله لا تعجل علي إني كنت امرا ملصقا في قريش ولم اكن من انفسها وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات بمكة يحمون بها اهليهم واموالهم، فاحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم ان اتخذ عندهم يدا يحمون بها قرابتي وما فعلت كفرا، ولا ارتدادا، ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لقد صدقكم، قال عمر: يا رسول الله دعني اضرب عنق هذا المنافق، قال: إنه قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله ان يكون قد اطلع على اهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم"، قال سفيان: واي إسناد هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا والزُّبَيْرَ والْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، قَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً وَمَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الرَّوْضَةِ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا حَاطِبُ مَا هَذَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ بِمَكَّةَ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ صَدَقَكُمْ، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، قَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَأَيُّ إِسْنَادٍ هَذَا.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ سفیان نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حسن بن محمد نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد بن اسود (رضی اللہ عنہم) کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ روضہ خاخ (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا ‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تو نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کر دیا ‘ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ‘ اس کا مضمون یہ تھا ‘ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف ‘ اس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا واقعہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا ‘ ان سے رشتہ ناتہ میرا کچھ بھی نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے ‘ اس لیے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئیے میں اس منافق کا سر اڑا دوں ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں ‘ یہ بدر کی لڑائی میں (مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں ‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا ‘ اور وہ خود ہی فرما چکا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔“ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ حدیث کی یہ سند بھی کتنی عمدہ ہے۔
Narrated 'Ubaidullah bin Abi Rafi`: I heard `Ali saying, "Allah's Apostle sent me, Az-Zubair and Al-Miqdad somewhere saying, 'Proceed till you reach Rawdat Khakh. There you will find a lady with a letter. Take the letter from her.' " So, we set out and our horses ran at full pace till we got at Ar-Rawda where we found the lady and said (to her). "Take out the letter." She replied, "I have no letter with me." We said, "Either you take out the letter or else we will take off your clothes." So, she took it out of her braid. We brought the letter to Allah's Apostle and it contained a statement from Hatib bin Abi Balta a to some of the Meccan pagans informing them of some of the intentions of Allah's Apostle. Then Allah's Apostle said, "O Hatib! What is this?" Hatib replied, "O Allah's Apostle! Don't hasten to give your judgment about me. I was a man closely connected with the Quraish, but I did not belong to this tribe, while the other emigrants with you, had their relatives in Mecca who would protect their dependents and property . So, I wanted to recompense for my lacking blood relation to them by doing them a favor so that they might protect my dependents. I did this neither because of disbelief not apostasy nor out of preferring Kufr (disbelief) to Islam." Allah's Apostle, said, "Hatib has told you the truth." `Umar said, O Allah's Apostle! Allow me to chop off the head of this hypocrite." Allah's Apostle said, "Hatib participated in the battle of Badr, and who knows, perhaps Allah has already looked at the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, for I have forgiven you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 251
(مرفوع) حدثني إسحاق بن إبراهيم، اخبرنا عبد الله بن إدريس، قال: سمعت حصين بن عبد الرحمن، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي الله عنه، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم وابا مرثد الغنوي , والزبير بن العوام وكلنا فارس، قال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ فإن بها امراة من المشركين معها كتاب من حاطب بن ابي بلتعة إلى المشركين" , فادركناها تسير على بعير لها حيث قال رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلنا: الكتاب، فقالت: ما معنا كتاب , فانخناها , فالتمسنا فلم نر كتابا، فقلنا: ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم لتخرجن الكتاب او لنجردنك , فلما رات الجد اهوت إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء فاخرجته , فانطلقنا بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: يا رسول الله قد خان الله ورسوله والمؤمنين فدعني فلاضرب عنقه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما حملك على ما صنعت"، قال حاطب: والله ما بي ان لا اكون مؤمنا بالله ورسوله صلى الله عليه وسلم , اردت ان يكون لي عند القوم يد يدفع الله بها عن اهلي ومالي , وليس احد من اصحابك إلا له هناك من عشيرته من يدفع الله به عن اهله وماله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" صدق ولا تقولوا له إلا خيرا"، فقال عمر: إنه قد خان الله ورسوله والمؤمنين فدعني فلاضرب عنقه، فقال:" اليس من اهل بدر"، فقال:" لعل الله اطلع إلى اهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد وجبت لكم الجنة , او فقد غفرت لكم" , فدمعت عينا عمر، وقال: الله ورسوله اعلم.(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُصَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ , وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَكُلُّنَا فَارِسٌ، قَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ" , فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا حَيْثُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْنَا: الْكِتَابُ، فَقَالَتْ: مَا مَعَنَا كِتَابٌ , فَأَنَخْنَاهَا , فَالْتَمَسْنَا فَلَمْ نَرَ كِتَابًا، فَقُلْنَا: مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ , فَلَمَّا رَأَتِ الْجِدَّ أَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْهُ , فَانْطَلَقْنَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ"، قَالَ حَاطِبٌ: وَاللَّهِ مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي , وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ عَشِيرَتِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ وَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا"، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ"، فَقَالَ:" لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ , أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ" , فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ، وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ ہم کو عبداللہ بن ادریس نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حسین بن عبدالرحمٰن سے سنا ‘ انہوں نے سعد بن عبیدہ سے ‘ انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے ‘ ابومرثد رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم پر بھیجا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ سیدھے چلے جاؤ۔ جب روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی ‘ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے جسے حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین کے نام بھیجا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پا لیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط دے دو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بیٹھا کر اس کی تلاشی لی تو واقعی ہمیں بھی کوئی خط نہیں ملا۔ لیکن ہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی خط نکال ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیا ہم اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے (یعنی حاطب بن ابی بلتعہ نے) اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کی قسم! یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان باقی نہیں رہا تھا میرا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ قریش پر اس طرح میرا ایک احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔ آپ کے اصحاب میں جتنے بھی حضرات (مہاجرین) ہیں ان سب کا قبیلہ وہاں موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی ہے اور تم لوگوں کو چاہئے کہ ان کے متعلق اچھی بات ہی کہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود فرما چکا ہے کہ ”تم جو چاہو کرو، تمہیں جنت ضرور ملے گی۔“(یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) میں نے تمہاری مغفرت کر دی ہے یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔
Narrated `Ali: Allah's Apostle sent me, Abu Marthad and Az-Zubair, and all of us were riding horses, and said, "Go till you reach Raudat-Khakh where there is a pagan woman carrying a letter from Hatib bin Abi Balta' a to the pagans of Mecca." So we found her riding her camel at the place which Allah's Apostle had mentioned. We said (to her),"(Give us) the letter." She said, "I have no letter." Then we made her camel kneel down and we searched her, but we found no letter. Then we said, "Allah's Apostle had not told us a lie, certainly. Take out the letter, otherwise we will strip you naked." When she saw that we were determined, she put her hand below her waist belt, for she had tied her cloak round her waist, and she took out the letter, and we brought her to Allah's Apostle Then `Umar said, "O Allah's Apostle! (This Hatib) has betrayed Allah, His Apostle and the believers! Let me cut off his neck!" The Prophet asked Hatib, "What made you do this?" Hatib said, "By Allah, I did not intend to give up my belief in Allah and His Apostle but I wanted to have some influence among the (Mecca) people so that through it, Allah might protect my family and property. There is none of your companions but has some of his relatives there through whom Allah protects his family and property." The Prophet said, "He has spoken the truth; do no say to him but good." `Umar said, "He as betrayed Allah, His Apostle and the faithful believers. Let me cut off his neck!" The Prophet said, "Is he not one of the Badr warriors? May be Allah looked at the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, as I have granted Paradise to you, or said, 'I have forgiven you."' On this, tears came out of `Umar's eyes, and he said, "Allah and His Apostle know better."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 319
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، قال: اخبرني الحسن بن محمد، انه سمع عبيد الله بن ابي رافع، يقول:سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير , والمقداد، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوا منها"، قال: فانطلقنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة قلنا لها: اخرجي الكتاب، قالت: ما معي كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لنلقين الثياب، قال: فاخرجته من عقاصها، فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس بمكة من المشركين يخبرهم ببعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا حاطب، ما هذا؟"، قال: يا رسول الله، لا تعجل علي، إني كنت امرا ملصقا في قريش يقول: كنت حليفا ولم اكن من انفسها، وكان من معك من المهاجرين من لهم قرابات يحمون اهليهم واموالهم، فاحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم ان اتخذ عندهم يدا يحمون قرابتي , ولم افعله ارتدادا عن ديني ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنه قد صدقكم"، فقال عمر: يا رسول الله، دعني اضرب عنق هذا المنافق، فقال:" إنه قد شهد بدرا، وما يدريك لعل الله اطلع على من شهد بدرا، فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم، فانزل الله السورة: يايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء تلقون إليهم بالمودة وقد كفروا بما جاءكم من الحق إلى قوله فقد ضل سواء السبيل سورة الممتحنة آية 1.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ، يَقُولُ:سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ , وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوا مِنْهَا"، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ قُلْنَا لَهَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ بِمَكَّةَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا حَاطِبُ، مَا هَذَا؟"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ يَقُولُ: كُنْتُ حَلِيفًا وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ مَنْ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي , وَلَمْ أَفْعَلْهُ ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ"، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ:" إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ السُّورَةَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ إِلَى قَوْلِهِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ سورة الممتحنة آية 1.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ انہیں حسن بن محمد بن علی نے خبر دی اور انہوں نے عبیداللہ بن رافع سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا اور ہدایت کی کہ (مکہ کے راستے پر) چلے جانا جب تم مقام روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی۔ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے ‘ تم اس سے وہ لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ ہم روانہ ہوئے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں ایک عورت ہودج میں سوار ملی (جس کا نام سارا یا کناد ہے) ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے لیکن جب ہم نے اس سے یہ کہا کہ اگر تو نے خود سے خط نکال کر ہمیں نہیں دیا تو ہم تیرا کپڑا اتار کر (تلاشی لیں گے) تب اس نے اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس ہوئے۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام (صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابوجہل) پھر انہوں نے اس میں مشرکین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر بھی دی تھی۔ (آپ فوج لے کر آنا چاہتے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں آپ جلدی نہ فرمائیں ‘ میں اس کی وجہ عرض کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں دوسرے مہاجرین کی طرح قریش کے خاندان سے نہیں ہوں ‘ صرف ان کا حلیف بن کر ان سے جڑ گیا ہوں اور دوسرے مہاجرین کے وہاں عزیز و اقرباء ہیں جو ان کے گھر بار مال و اسباب کی نگرانی کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ خیر جب میں خاندان کی رو سے ان کا شریک نہیں ہوں تو کچھ احسان ہی ان پر ایسا کر دوں جس کے خیال سے وہ میرے کنبہ والوں کو نہ ستائیں۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے پھر کر نہیں کیا اور نہ اسلام لانے کے بعد میرے دل میں کفر کی حمایت کا جذبہ ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعی انہوں نے تمہارے سامنے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت ہو تو میں اس منافق کی گردن اڑا دوں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ غزوہ بدر میں شریک رہے ہیں اور تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ جو غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کے کام سے واقف ہے سورۃ الممتحنہ میں اس نے ان کے متعلق خود فرما دیا ہے کہ ”جو چاہو کرو میں نے تمہارے گناہ معاف کر دیئے“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء تلقون إليهم بالمودة»”اے وہ لوگو جو ایمان لا چکے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے تم اپنی محبت کا اظہار کرتے رہو۔ آیت «فقد ضل سواء السبيل» تک۔
Narrated `Ali: Allah's Apostle sent me, Az-Zubair and Al-Miqdad saying, "Proceed till you reach Rawdat Khakh where there is a lady carrying a letter, and take that (letter) from her." So we proceeded on our way with our horses galloping till we reached the Rawda, and there we found the lady and said to her, "Take out the letter." She said, "I have no letter." We said, "Take out the letter, or else we will take off your clothes." So she took it out of her braid, and we brought the letter to Allah's Apostle . The letter was addressed from Hatib, bin Abi Balta'a to some pagans of Mecca, telling them about what Allah's Apostle intended to do. Allah's Apostle said, "O Hatib! What is this?" Hatib replied, "O Allah's Apostle! Do not make a hasty decision about me. I was a person not belonging to Quraish but I was an ally to them from outside and had no blood relation with them, and all the Emigrants who were with you, have got their kinsmen (in Mecca) who can protect their families and properties. So I liked to do them a favor so that they might protect my relatives as I have no blood relation with them. I did not do this to renegade from my religion (i.e. Islam) nor did I do it to choose Heathenism after Islam." Allah's Apostle said to his companions." As regards him, he (i.e. Hatib) has told you the truth." `Umar said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop off the head of this hypocrite!" The Prophet said, "He (i.e. Hatib) has witnessed the Badr battle (i.e. fought in it) and what could tell you, perhaps Allah looked at those who witnessed Badr and said, "O the people of Badr (i.e. Badr Muslim warriors), do what you like, for I have forgiven you. "Then Allah revealed the Sura:-- "O you who believe! Take not my enemies And your enemies as friends offering them (Your) love even though they have disbelieved in that Truth (i.e. Allah, Prophet Muhammad and this Qur'an) which has come to you ....(to the end of Verse)....(And whosoever of you (Muslims) does that, then indeed he has gone (far) astray (away) from the Straight Path." (60.1
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 572
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار، قال: حدثني الحسن بن محمد بن علي، انه سمع عبيد الله بن ابي رافع كاتب علي، يقول: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب، فخذوه منها، فذهبنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة، فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب، او لنلقين الثياب، فاخرجته من عقاصها، فاتينا به النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى اناس من المشركين ممن بمكة يخبرهم ببعض امر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما هذا يا حاطب؟" قال: لا تعجل علي يا رسول الله، إني كنت امرا من قريش ولم اكن من انفسهم، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم واموالهم بمكة، فاحببت إذ فاتني من النسب فيهم ان اصطنع إليهم يدا يحمون قرابتي وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنه قد صدقكم" فقال عمر: دعني يا رسول الله، فاضرب عنقه، فقال:" إنه شهد بدرا وما يدريك لعل الله عز وجل اطلع على اهل بدر، فقال:" اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم"، قال عمرو: ونزلت فيه يايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء سورة الممتحنة آية 1، قال: لا ادري الآية في الحديث، او قول عمرو. حدثنا علي، قال: قيل لسفيان في هذا، فنزلت لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء سورة الممتحنة آية 1 الآية، قال سفيان: هذا في حديث الناس حفظته من عمرو ما تركت منه حرفا وما ارى احدا حفظه غيري.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبَ عَلِيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا، فَذَهَبْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِمَّنْ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟" قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِنْ قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَصْطَنِعَ إِلَيْهِمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ" فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ:" إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ:" اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ"، قَالَ عَمْرٌو: وَنَزَلَتْ فِيهِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1، قَالَ: لَا أَدْرِي الْآيَةَ فِي الْحَدِيثِ، أَوْ قَوْلُ عَمْرٍو. حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: قِيلَ لِسُفْيَانَ فِي هَذَا، فَنَزَلَتْ لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1 الْآيَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا فِي حَدِيثِ النَّاسِ حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو مَا تَرَكْتُ مِنْهُ حَرْفًا وَمَا أُرَى أَحَدًا حَفِظَهُ غَيْرِي.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی نے بیان کیا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا اور فرمایا کہ چلے جاؤ اور جب مقام خاخ کے باغ پر پہنچ جاؤ گے (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا) تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی، اس کے ساتھ ایک خط ہو گا، وہ خط تم اس سے لے لینا۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم اس باغ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں اس عورت کو پا لیا ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے ورنہ ہم تیرا سارا کپڑا اتار کر تلاشی لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکالا ہم لوگ وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند آدمیوں کی طرف جو مکہ میں تھے اس خط میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کا ذکر لکھا تھا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑی فوج لے کر آتے ہیں تم اپنا بچاؤ کر لو)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں میں قریش کے ساتھ بطور حلیف (زمانہ قیام مکہ میں) رہا کرتا تھا لیکن ان کے قبیلہ و خاندان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتہ داریاں ہیں اور ان کی رعایت سے قریش مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جبکہ ان سے میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں اور اس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ یا رسول اللہ! میں نے یہ عمل کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً انہوں نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم» کہ الایۃ۔ ”اے ایمان والو! تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا۔“ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اس آیت کا ذکر حدیث میں داخل ہے یا نہیں یہ عمرو بن دینار کا قول ہے۔ ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آیت «لا تتخذوا عدوي» انہیں کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ سفیان نے کہا کہ لوگوں کی روایت میں تو یونہی ہے لیکن میں نے عمرو سے حدیث یاد کی اس میں سے ایک حرف بھی میں نے نہیں چھوڑا اور میں نہیں سمجھتا کہ میرے سوا اور کسی نے اس حدیث کو عمرو سے خوب یاد رکھا ہو۔
Narrated `Ali: Allah's Messenger sent me along with AzZubair and Al-Miqdad and said, "Proceed till you reach a place called Raudat-Khakh where there is a lady travelling in a howda on a camel. She has a letter. Take the letter from her." So we set out, and our horses ran at full pace till we reached Raudat Khakh, and behold, we saw the lady and said (to her), "Take out the letter!" She said, "I have no letter with me." We said, "Either you take out the letter or we will strip you of your clothes." So she took the letter out of her hair braid. We brought the letter to the Prophet and behold, it was addressed by Hatib bin Abi Balta'a to some pagans at Mecca, informing them of some of the affairs of the Prophet. The Prophet said, "What is this, O Hatib?" Hatib replied, "Do not be hasty with me, O Allah's Messenger ! I am an Ansari man and do not belong to them (Quraish infidels) while the emigrants who were with you had their relatives who used to protect their families and properties at Mecca. So, to compensate for not having blood relation with them.' I intended to do them some favor so that they might protect my relatives (at Mecca), and I did not do this out of disbelief or an inclination to desert my religion." The Prophet then said (to his companions), "He (Hatib) has told you the truth." `Umar said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop his head off?" The Apostle said, "He is one of those who witnessed (fought in) the Battle of Badr, and what do you know, perhaps Allah looked upon the people of Badr (Badr warriors) and said, 'Do what you want as I have forgiven you.' " (`Amr, a sub-narrator, said,: This Verse was revealed about him (Hatib): 'O you who believe! Take not My enemies and your enemies as friends or protectors.' (60.1) Narrated `Ali: Sufyan was asked whether (the Verse): 'Take not My enemies and your enemies...' was revealed in connection with Hatib. Sufyan replied, "This occurs only in the narration of the people. I memorized the Hadith from `Amr, not overlooking even a single letter thereof, and I do not know of anybody who remembered it by heart other than myself."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 412, 413
(مرفوع) حدثنا يوسف بن بهلول، حدثنا ابن إدريس، قال: حدثني حصين بن عبد الرحمن، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم، والزبير بن العوام، وابا مرثد الغنوي، وكلنا فارس، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها امراة من المشركين معها صحيفة من حاطب بن ابي بلتعة إلى المشركين"، قال: فادركناها تسير على جمل لها، حيث قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلنا: اين الكتاب الذي معك؟ قالت: ما معي كتاب، فانخنا بها فابتغينا في رحلها، فما وجدنا شيئا، قال صاحباي: ما نرى كتابا، قال: قلت: لقد علمت ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم، والذي يحلف به لتخرجن الكتاب، او لاجردنك، قال: فلما رات الجد مني، اهوت بيدها إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء، فاخرجت الكتاب، قال: فانطلقنا به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما حملك يا حاطب على ما صنعت"، قال: ما بي إلا ان اكون مؤمنا بالله ورسوله، وما غيرت، ولا بدلت، اردت ان تكون لي عند القوم يد يدفع الله بها عن اهلي ومالي، وليس من اصحابك هناك إلا وله من يدفع الله به عن اهله وماله، قال:" صدق فلا تقولوا له إلا خيرا"، قال: فقال عمر بن الخطاب: إنه قد خان الله ورسوله والمؤمنين، فدعني فاضرب عنقه، قال: فقال:" يا عمر، وما يدريك لعل الله قد اطلع على اهل بدر"، فقال:" اعملوا ما شئتم فقد وجبت لكم الجنة"، قال: فدمعت عينا عمر، وقال: الله ورسوله اعلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بُهْلُولٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، والزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ"، قَالَ: فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهَا، حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْنَا: أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا، فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا، قَالَ صَاحِبَايَ: مَا نَرَى كِتَابًا، قَالَ: قُلْتُ: لَقَدْ عَلِمْتُ مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتِ الْجِدَّ مِنِّي، أَهْوَتْ بِيَدِهَا إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ، فَأَخْرَجَتِ الْكِتَابَ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا حَمَلَكَ يَا حَاطِبُ عَلَى مَا صَنَعْتَ"، قَالَ: مَا بِي إِلَّا أَنْ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَا غَيَّرْتُ، وَلَا بَدَّلْتُ، أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ هُنَاكَ إِلَّا وَلَهُ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، قَالَ:" صَدَقَ فَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا"، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، فَدَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ: فَقَالَ:" يَا عُمَرُ، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ"، فَقَالَ:" اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ"، قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ، وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
ہم سے یوسف بن بہلول نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر بن عوام اور ابومرثد غنوی کو بھیجا۔ ہم سب گھوڑ سوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین کے پاس بھیجا گیا ہے (اسے لے آؤ)۔ بیان کیا کہ ہم نے اس عورت کو پا لیا وہ اپنے اونٹ پر جا رہی تھی اور وہیں پر ملی (جہاں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ بیان کیا کہ ہم نے اس سے کہا کہ خط جو تم ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوہ میں تلاشی لی لیکن ہمیں کوئی چیز نہیں ملی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کوئی خط تو نظر آتا نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے کہا، مجھے یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں کہی ہے۔ قسم ہے اس کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے، تم خط نکالو ورنہ میں تمہیں ننگا کر دوں گا۔ بیان کیا کہ جب اس عورت نے دیکھا کہ میں واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہوں تو اس نے ازار باندھنے کی جگہ کی طرف ہاتھ بڑھایا، وہ ایک چادر ازار کے طور پر باندھے ہوئے تھی اور خط نکالا۔ بیان کیا کہ ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ حاطب تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے اندر کوئی تغیر و تبدیلی نہیں آئی ہے، میرا مقصد (خط بھیجنے سے) صرف یہ تھا کہ (قریش پر آپ کی فوج کشی کی اطلاع دوں اور اس طرح) میرا ان لوگوں پر احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے اللہ میرے اہل اور مال کی طرف سے (ان سے) مدافعت کرائے۔ آپ کے جتنے مہاجر صحابہ ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد ہیں جن کے ذریعہ اللہ ان کے مال اور ان کے گھر والوں کی حفاظت کرائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہ دیا ہے اب تم لوگ ان کے بارے میں سوا بھلائی کے اور کچھ نہ کہو بیان کیا کہ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر کی لڑائی میں شریک صحابہ کی زندگی پر مطلع تھا اور اس کے باوجود فرمایا کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت لکھ دی گئی ہے، بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔
Narrated `Ali: Allah's Apostle sent me, Az-Zubair bin Al-Awwam and Abu Marthad Al-Ghanawi, and all of us were horsemen, and he said, "Proceed till you reach Rawdat Khakh, where there is a woman from the pagans carrying a letter sent by Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Mecca)." So we overtook her while she was proceeding on her camel at the same place as Allah's Apostle told us. We said (to her) "Where is the letter which is with you?" She said, "I have no letter with me." So we made her camel kneel down and searched her mount (baggage etc) but could not find anything. My two companions said, "We do not see any letter." I said, "I know that Allah's Apostle did not tell a lie. By Allah, if you (the lady) do not bring out the letter, I will strip you of your clothes' When she noticed that I was serious, she put her hand into the knot of her waist sheet, for she was tying a sheet round herself, and brought out the letter. So we proceeded to Allah's Apostle with the letter. The Prophet said (to Habib), "What made you o what you have done, O Hatib?" Hatib replied, "I have done nothing except that I believe in Allah and His Apostle, and I have not changed or altered (my religion). But I wanted to do the favor to the people (pagans of Mecca) through which Allah might protect my family and my property, as there is none among your companions but has someone in Mecca through whom Allah protects his property (against harm). The Prophet said, "Habib has told you the truth, so do not say to him (anything) but good." `Umar bin Al-Khattab said, "Verily he has betrayed Allah, His Apostle, and the believers! Allow me to chop his neck off!" The Prophet said, "O `Umar! What do you know; perhaps Allah looked upon the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, for I have ordained that you will be in Paradise.'" On that `Umar wept and said, "Allah and His Apostle know best."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 276
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن حصين، عن فلان، قال: تنازع ابو عبد الرحمن، وحبان بن عطية، فقال ابو عبد الرحمن، لحبان: لقد علمت ما الذي جرا صاحبك على الدماء، يعني عليا، قال: ما هو لا ابا لك، قال: شيء سمعته يقوله، قال: ما هو؟، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم، والزبير، وابا مرثد، وكلنا فارس، قال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة حاج، قال ابو سلمة: هكذا قال ابو عوانة، حاج: فإن فيها امراة معها صحيفة من حاطب بن ابي بلتعة إلى المشركين فاتوني بها، فانطلقنا على افراسنا حتى ادركناها حيث قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم تسير على بعير لها، وقد كان كتب إلى اهل مكة بمسير رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فقلنا: اين الكتاب الذي معك؟، قالت: ما معي كتاب، فانخنا بها بعيرها، فابتغينا في رحلها، فما وجدنا شيئا، فقال صاحباي: ما نرى معها كتابا، قال: فقلت: لقد علمنا ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم حلف علي: والذي يحلف به لتخرجن الكتاب، او لاجردنك، فاهوت إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء، فاخرجت الصحيفة، فاتوا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: يا رسول الله، قد خان الله ورسوله والمؤمنين، دعني فاضرب عنقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا حاطب ما حملك على ما صنعت؟، قال: يا رسول الله، ما لي ان لا اكون مؤمنا بالله ورسوله، ولكني اردت ان يكون لي عند القوم يد يدفع بها عن اهلي ومالي، وليس من اصحابك احد إلا له هنالك من قومه من يدفع الله به عن اهله وماله، قال: صدق، لا تقولوا له إلا خيرا، قال: فعاد عمر فقال: يا رسول الله، قد خان الله ورسوله والمؤمنين، دعني فلاضرب عنقه، قال: اوليس من اهل بدر، وما يدريك لعل الله اطلع عليهم، فقال اعملوا ما شئتم، فقد اوجبت لكم الجنة، فاغرورقت عيناه"، فقال: الله ورسوله اعلم، قال ابو عبد الله: خاخ اصح، ولكن كذا، قال ابو عوانة: حاج وحاج تصحيف، وهو موضع، وهشيم، يقول خاخ.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ فُلَانٍ، قَالَ: تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لِحِبَّانَ: لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ، يَعْنِي عَلِيًّا، قَالَ: مَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ، قَالَ: شَيْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ، قَالَ: مَا هُوَ؟، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالزُّبَيْرَ، وَأَبَا مَرْثَدٍ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، قَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ، حَاجٍ: فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِي بِهَا، فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، وَقَدْ كَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقُلْنَا: أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟، قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا، فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا، فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا، فَقَالَ صَاحِبَايَ: مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ: وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ، فَأَخْرَجَتِ الصَّحِيفَةَ، فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا حَاطِبُ مَا حَمَلكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، قَالَ: صَدَقَ، لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا، قَالَ: فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ: أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمُ الْجَنَّةَ، فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ"، فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: خَاخٍ أَصَحُّ، وَلَكِنْ كَذَا، قَالَ أَبُو عَوَانَةَ: حَاجٍ وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ، وَهُوَ مَوْضِعٌ، وَهُشَيْمٌ، يَقُولُ خَاخٍ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن سلمی نے، ان سے فلاں شخص (سعید بن عبیدہ) نے کہ ابوعبدالرحمٰن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابوعبدالرحمٰن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہو گئے ہیں۔ ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پر حبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے، تیرا باپ نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ مجھے، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت (سارہ نامی) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھا گیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار جا رہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کو آنے کی خبر دی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھا دیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔ اس کے بعد یہ لوگ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہو جائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو (ان کے ہاتھ سے) بچا لوں۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں (خوشی سے) آنسو بھر آئے اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ «خاخ» زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے «حاج» ہی بیان کیا ہے اور لفظ «حاج» بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہشیم نے «خاخ» بیان کیا ہے۔
Narrated: Abu `Abdur-Rahman and Hibban bin 'Atiyya had a dispute. Abu `Abdur-Rahman said to Hibban, "You know what made your companions (i.e. `Ali) dare to shed blood." Hibban said, "Come on! What is that?" `Abdur-Rahman said, "Something I heard him saying." The other said, "What was it?" `AbdurRahman said, "`Ali said, Allah's Apostle sent for me, Az-Zubair and Abu Marthad, and all of us were cavalry men, and said, 'Proceed to Raudat-Hajj (Abu Salama said that Abu 'Awana called it like this, i.e., Hajj where there is a woman carrying a letter from Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Mecca). So bring that letter to me.' So we proceeded riding on our horses till we overtook her at the same place of which Allah's Apostle had told us. She was traveling on her camel. In that letter Hatib had written to the Meccans about the proposed attached of Allah's Apostle against them. We asked her, "Where is the letter which is with you?' She replied, 'I haven't got any letter.' So we made her camel kneel down and searched her luggage, but we did not find anything. My two companions said, 'We do not think that she has got a letter.' I said, 'We know that Allah's Apostle has not told a lie.'" Then `Ali took an oath saying, "By Him by Whom one should swear! You shall either bring out the letter or we shall strip off your clothes." She then stretched out her hand for her girdle (round her waist) and brought out the paper (letter). They took the letter to Allah's Apostle. `Umar said, "O Allah's Apostle! (Hatib) has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop off his neck!" Allah's Apostle said, "O Hatib! What obliged you to do what you have done?" Hatib replied, "O Allah's Apostle! Why (for what reason) should I not believe in Allah and His Apostle? But I intended to do the (Mecca) people a favor by virtue of which my family and property may be protected as there is none of your companions but has some of his people (relatives) whom Allah urges to protect his family and property." The Prophet said, "He has said the truth; therefore, do not say anything to him except good." `Umar again said, "O Allah's Apostle! He has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop his neck off!" The Prophet said, "Isn't he from those who fought the battle of Badr? And what do you know, Allah might have looked at them (Badr warriors) and said (to them), 'Do what you like, for I have granted you Paradise?' " On that, `Umar's eyes became flooded with tears and he said, "Allah and His Apostle know best."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 72