(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال سالم: سمعت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، يقول:" انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بن كعب الانصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد، حتى إذا دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم طفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل وهو يختل ان يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه، وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها رمرمة او زمزمة، فرات ام ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت لابن صياد: اي صاف هذا محمد، فتناهى ابن صياد؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو تركته بين".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ يَؤُمَّانِ النَّخْلَ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ، وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْرَمَةٌ أَوْ زَمْزَمَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: أَيْ صَافِ هَذَا مُحَمَّدٌ، فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھجور کے اس باغ کی طرف تشریف لے گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم درختوں کی آڑ میں چھپ کر چلنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھنے نہ پائے اور اس سے پہلے آپ اس کی باتیں سن سکیں۔ ابن صیاد ایک روئیں دار چادر میں زمین پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درخت کی آڑ لیے چلے آ رہے ہیں تو وہ کہنے لگی اے صاف! یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آ رہے ہیں۔ ابن صیاد ہوشیار ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر اسے اپنے حال پر رہنے دیتی تو بات ظاہر ہو جاتی۔“
Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle and Ubai bin Ka`b Al-Ansari went to the garden where Ibn Saiyad used to live. When Allah's Apostle entered (the garden), he (i.e. Allah's Apostle ) started hiding himself behind the date108 palms as he wanted to hear secretly the talk of Ibn Saiyad before the latter saw him. Ibn Saiyad wrapped with a soft decorated sheet was lying on his bed murmuring. Ibn Saiyad's mother saw the Prophet hiding behind the stems of the date-palms. She addressed Ibn Saiyad saying, "O Saf, this is Muhammad." Hearing that Ibn Saiyad stopped murmuring (or got cautious), the Prophet said, "If she had left him undisturbed, he would have revealed his reality." (See Hadith No. 290, Vol 4 for details)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 806
(مرفوع) وقال سالم: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما , يقول: انطلق بعد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بن كعب إلى النخل التي فيها ابن صياد، وهو يختل ان يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه ابن صياد، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع يعني: في قطيفة له فيها رمزة او زمرة، فرات ام ابن صياد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت لابن صياد: يا صاف وهو اسم ابن صياد هذا محمد صلى الله عليه وسلم، فثار ابن صياد , فقال: النبي صلى الله عليه وسلم لو تركته بين، وقال شعيب في حديثه: فرفصه رمرمة او زمزمة، وقال إسحاق الكلبيوعقيل: رمرمة، وقال معمر: رمزة.(مرفوع) وَقَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ يَعْنِي: فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ، فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ , فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ، وَقَالَ شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ: فَرَفَصَهُ رَمْرَمَةٌ أَوْ زَمْزَمَةٌ، وَقَالَ إِسْحَاقُ الْكَلْبِيُّوَعُقَيْلٌ: رَمْرَمَةٌ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: رَمْزَةٌ.
اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے۔ جہاں ابن صیاد تھا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جا رہے تھے۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف! یہ نام ابن صیاد کا تھا۔ دیکھو محمد آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا۔ شعیب نے اپنی روایت میں «رمرمة فرفصه» اور عقیل نے «رمرمة» نقل کیا ہے اور معمر نے «رمزة» کہا ہے۔
(Ibn `Umar added): Later on Allah's Apostle (p.b.u.h) once again went along with Ubai bin Ka`b to the date-palm trees (garden) where Ibn Saiyad was staying. The Prophet (p.b.u.h) wanted to hear something from Ibn Saiyad before Ibn Saiyad could see him, and the Prophet (p.b.u.h) saw him lying covered with a sheet and from where his murmurs were heard. Ibn Saiyad's mother saw Allah's Apostle while he was hiding himself behind the trunks of the date-palm trees. She addressed Ibn Saiyad, "O Saf ! (and this was the name of Ibn Saiyad) Here is Muhammad." And with that Ibn Saiyad got up. The Prophet said, "Had this woman left him (Had she not disturbed him), then Ibn Saiyad would have revealed the reality of his case.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 437
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، اخبرنا معمر، عن الزهري، اخبرني سالم بن عبد الله، عن ابن عمر رضي الله عنهما، انه اخبره ان عمر انطلق في رهط من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل ابن صياد حتى وجدوه يلعب مع الغلمان عند اطم بني مغالة وقد قارب يومئذ ابن صياد يحتلم، فلم يشعر بشيء حتى ضرب النبي صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتشهد اني رسول الله فنظر إليه ابن صياد، فقال: اشهد انك رسول الاميين، فقال: ابن صياد للنبي صلى الله عليه وسلم اتشهد اني رسول الله، قال له: النبي صلى الله عليه وسلم آمنت بالله ورسله، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ماذا ترى؟، قال ابن صياد: ياتيني صادق وكاذب، قال النبي صلى الله عليه وسلم: خلط عليك الامر، قال النبي صلى الله عليه وسلم: إني قد خبات لك خبيئا، قال ابن صياد هو الدخ، قال النبي صلى الله عليه وسلم: اخسا فلن تعدو قدرك، قال عمر: يا رسول الله ائذن لي فيه اضرب عنقه، قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن يكنه فلن تسلط عليه وإن لم يكنه فلا خير لك في قتله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَقَدْ قَارَبَ يَوْمَئِذٍ ابْنُ صَيَّادٍ يَحْتَلِمُ، فَلَمْ يَشْعُرْ بِشَيْءٍ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، فَقَالَ: ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ لَهُ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاذَا تَرَى؟، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُلِطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ‘ ابن صیاد (یہودی لڑکا) کے یہاں جا رہی تھی۔ آخر بنو مغالہ (ایک انصاری قبیلے) کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے ان لوگوں نے پا لیا ‘ ابن صیاد بالغ ہونے کے قریب تھا۔ اسے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا) پتہ نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قریب پہنچ کر) اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا ‘ اور فرمایا کیا تو اس کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا ‘ پھر کہنے لگا۔ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے نبی ہیں۔ اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آپ نے اس کا جواب (صرف اتنا) دیا کہ میں اللہ اور اس کے (سچے) انبیاء پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ تو کیا دیکھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک خبر سچی آتی ہے تو دوسری جھوٹی بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ حقیقت حال تجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ”اچھا میں نے تیرے لیے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتا وہ کیا ہے؟)“ ابن صیاد بولا کہ دھواں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ذلیل ہو ‘ کمبخت! تو اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! مجھے اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہو سکتے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں۔“
Narrated Ibn 'Umar: Umar and a group of the companions of the Prophet set out with the Prophet to Ibn Saiyad. He found him playing with some boys near the hillocks of Bani Maghala. Ibn Saiyad at that time was nearing his puberty. He did not notice (the Prophet's presence) till the Prophet stroked him on the back with his hand and said, "Ibn Saiyad! Do you testify that I am Allah's Apostle?" Ibn Saiyad looked at him and said, "I testify that you are the Apostle of the illiterates." Then Ibn Saiyad asked the Prophet. "Do you testify that I am the apostle of Allah?" The Prophet said to him, "I believe in Allah and His Apostles." Then the Prophet said (to Ibn Saiyad). "What do you see?" Ibn Saiyad replied, "True people and false ones visit me." The Prophet said, "Your mind is confused as to this matter." The Prophet added, " I have kept something (in my mind) for you." Ibn Saiyad said, "It is Ad-Dukh." The Prophet said (to him), "Shame be on you! You cannot cross your limits." On that 'Umar said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop his head off." The Prophet said, "If he should be him (i.e. Ad-Dajjal) then you cannot overpower him, and should he not be him, then you are not going to benefit by murdering him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 290
(مرفوع ، موقوف) قال ابن عمر: انطلق النبي صلى الله عليه وسلم وابي بن كعب ياتيان النخل الذي فيه ابن صياد حتى إذا دخل النخل، طفق النبي صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل وهو يختل ابن صياد ان يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها رمزة، فرات ام ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت: لابن صياد اي صاف وهو اسمه فثار ابن صياد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لو تركته بين".(مرفوع ، موقوف) قَالَ ابْنُ عُمَرَ: انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يَأْتِيَانِ النَّخْلَ الَّذِي فِيهِ ابْنُ صَيَّادٍ حَتَّى إِذَا دَخَلَ النَّخْلَ، طَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ ابْنَ صَيَّادٍ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ: لِابْنِ صَيَّادٍ أَيْ صَافِ وَهُوَ اسْمُهُ فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ(ایک مرتبہ) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کھجور کے باغ میں تشریف لائے جس میں ابن صیاد موجود تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہو گئے تو کھجور کے تنوں کی آڑ لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھنے لگے۔ آپ چاہتے یہ تھے کہ اسے آپ کی موجودگی کا احساس نہ ہو سکے اور آپ اس کی باتیں سن لیں۔ ابن صیاد اس وقت اپنے بستر پر ایک چادر اوڑھے پڑا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ اتنے میں اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ کھجور کے تنوں کی آڑ لے کر آگے آ رہے ہیں اور اسے آگاہ کر دیا کہ اے صاف! یہ اس کا نام تھا۔ ابن صیاد یہ سنتے ہی اچھل پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر اس کی ماں نے اسے یوں ہی رہنے دیا ہوتا تو حقیقت کھل جاتی۔
Narrated Ibn Umar: (Later on) Allah's Apostle (once again) went along with Ubai bin Ka'b to the garden of date-palms where Ibn Saiyad was staying. When the Prophet entered the garden, he started hiding himself behind the trunks of the date-palms as he wanted to hear something from the Ibn Saiyad before the latter could see him. Ibn Saiyad was lying in his bed, covered with a velvet sheet from where his murmurs were heard. Ibn Saiyad's mother saw the Prophet while he was hiding himself behind the trunks of the date-palms. She addressed Ibn Saiyad, "O Saf!" (And this was his name). Ibn Saiyad got up. The Prophet said, "Had this woman let him to himself, he would have revealed the reality of his case."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 290
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا سلم بن زرير، سمعت ابا رجاء، سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابن صائد:" قد خبات لك خبيئا، فما هو؟" قال: الدخ، قال:" اخسا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ، سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ، سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَائِدٍ:" قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا، فَمَا هُوَ؟" قَالَ: الدُّخُّ، قَالَ:" اخْسَأْ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم بن زریر نے بیان کیا، کہا میں نے ابورجاء سے سنا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا ”میں نے اس وقت اپنے دل میں ایک بات چھپا رکھی ہے، وہ کیا ہے؟“ وہ بولا «الدخ.» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چل دور ہو جا۔
Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle said to Ibn Saiyad "I have hidden something for you in my mind; What is it?" He said, "Ad-Dukh." The Prophet said, "Ikhsa."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 193
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر، اخبره ان عمر بن الخطاب انطلق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من اصحابه قبل ابن صياد حتى وجده يلعب مع الغلمان في اطم بني مغالة وقد قارب ابن صياد يومئذ الحلم، فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال:" اتشهد اني رسول الله؟ فنظر إليه، فقال: اشهد انك رسول الاميين، ثم قال ابن صياد: اتشهد اني رسول الله، فرضه النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال: آمنت بالله ورسله ثم قال لابن صياد: ماذا ترى؟ قال: ياتيني صادق وكاذب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خلط عليك الامر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني خبات لك خبيئا قال: هو الدخ، قال:" اخسا، فلن تعدو قدرك" قال عمر: يا رسول الله اتاذن لي فيه اضرب عنقه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن يكن هو لا تسلط عليه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّى وَجَدَهُ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فِي أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَرَضَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: مَاذَا تَرَى؟ قَالَ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا قَالَ: هُوَ الدُّخُّ، قَالَ:" اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ" قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْذَنُ لِي فِيهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ يَكُنْ هُوَ لَا تُسَلَّطُ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُوَ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی، کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن صیاد کی طرف گئے۔ بہت سے دوسرے صحابہ بھی ساتھ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ چند بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے قلعہ کے پاس کھیل رہا ہے۔ ان دنوں ابن صیاد بلوغ کے قریب تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا اسے احساس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آپ نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر کہا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے یعنی (عربوں کے) رسول ہیں۔ پھر ابن صیاد نے کہا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے دفع کر دیا اور فرمایا، میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ پھر ابن صیاد سے آپ نے پوچھا، تم کیا دیکھتے ہو؟ اس نے کہا کہ میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لیے معاملہ کو مشتبہ کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہارے لیے ایک بات اپنے دل میں چھپا رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ وہ «الدخ.» ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دور ہو، اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ اسے قتل کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر یہ وہی (دجال) ہے تو اس پر غالب نہیں ہوا جا سکتا اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی خیر نہیں۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: `Umar bin Al-Khattab set out with Allah's Apostle, and a group of his companions to Ibn Saiyad. They found him playing with the boys in the fort or near the Hillocks of Bani Maghala. Ibn Saiyad was nearing his puberty at that time, and he did not notice the arrival of the Prophet till Allah's Apostle stroked him on the back with his hand and said, "Do you testify that I am Allah's Apostle?" Ibn Saiyad looked at him and said, "I testify that you are the Apostle of the unlettered ones (illiterates)". Then Ibn Saiyad said to the Prophets . "Do you testify that I am Allah's Apostle?" The Prophet denied that, saying, "I believe in Allah and all His Apostles," and then said to Ibn Saiyad, "What do you see?" Ibn Saiyad said, "True people and liars visit me." The Prophet said, "You have been confused as to this matter." Allah's Apostle added, "I have kept something for you (in my mind)." Ibn Saiyad said, "Ad-Dukh." The Prophet said, "Ikhsa (you should be ashamed) for you can not cross your limits." `Umar said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop off h is neck." Allah's Apostle said (to `Umar). "Should this person be him (i.e. Ad-Dajjal) then you cannot over-power him; and should he be someone else, then it will be no use your killing him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 194
(مرفوع) حدثنا علي بن حفص، وبشر بن محمد، قالا: اخبرنا عبد الله اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لابن صياد:" خبات لك خبيئا"، قال: الدخ؟ قال:" اخسا، فلن تعدو قدرك"، قال عمر: ائذن لي فاضرب عنقه، قال:" دعه إن يكن هو فلا تطيقه، وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، وَبِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ:" خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئَا"، قَالَ: الدُّخُّ؟ قَالَ:" اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ"، قَالَ عُمَرُ: ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ:" دَعْهُ إِنْ يَكُنْ هُوَ فَلَا تُطِيقُهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُوَ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ".
ہم سے علی بن حفص اور بشر بن محمد نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ نے ہمیں خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا کہ میں نے تیرے لیے ایک بات دل میں چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) اس نے کہا کہ ”دھواں“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدبخت! اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، اگر یہ وہی (دجال) ہوا تو تم اس پر قابو نہیں پا سکتے اور اگر یہ وہ نہ ہوا تو اسے قتل کرنے میں تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet said to Ibn Saiyad, "I have kept for you a secret." Ibn Saiyad said, "Ad-Dukh." The Prophet said, "Keep quiet, for you cannot go beyond your limits (or you cannot exceed what has been foreordained for you)." On that, `Umar said (to the Prophet ), "Allow me to chop off his neck!" The Prophet said, "Leave him, for if he is he (i.e., Ad-Dajjal), then you will not be able to overcome him, and if he is not, then you gain no good by killing him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 615