صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
The Book of Al-Mazalim
19. بَابُ مَا جَاءَ فِي السَّقَائِفِ:
19. باب: چوپالوں کے بارے میں۔
(19) Chapter. What is said about sheds.
حدیث نمبر: 2462
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: حدثني مالك، واخبرني يونس، عن ابن شهاب، اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، ان ابن عباس اخبره، عن عمر رضي الله عنهم، قال:" حين توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم إن الانصار اجتمعوا في سقيفة بني ساعدة، فقلت لابي بكر: انطلق بنا، فجئناهم في سقيفة بني ساعدة".(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، وَأَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ:" حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْأَنْصَارَ اجْتَمَعُوا فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: انْطَلِقْ بِنَا، فَجِئْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ کو یونس نے خبر دی کہ ابن شہاب نے کہا، مجھ کو خبر دی عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وفات دے دی تو انصار بنو ساعدہ کے «سقيفة» چوپال میں جمع ہوئے۔ میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہمیں بھی وہیں لے چلئے۔ چنانچہ ہم انصار کے یہاں سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Umar: When Allah took away the soul of His Prophet at his death, the Ansar assembled In the shed of Bani Sa`ida. I said to Abu Bakr, "Let us go." So, we come to them (i.e. to Ansar) at the shed of Bani Sa`ida. (See Hadith No. 19, Vol. 5 for details)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 43, Number 642

حدیث نمبر: 3445
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: سمعت الزهري، يقول: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس سمع عمر رضي الله عنه، يقول: على المنبر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فإنما انا عبده، فقولوا: عبد الله ورسوله".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Umar: I heard the Prophet saying, "Do not exaggerate in praising me as the Christians praised the son of Mary, for I am only a Slave. So, call me the Slave of Allah and His Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 654

حدیث نمبر: 3928
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا يحيى بن سليمان، حدثني ابن وهب، حدثنا مالك، واخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، انعبد الله بن عباس اخبره، ان عبد الرحمن بن عوف رجع إلى اهله وهو بمنى في آخر حجة حجها عمر فوجدني، فقال عبد الرحمن: فقلت: يا امير المؤمنين إن الموسم يجمع رعاع الناس , وإني ارى ان تمهل حتى تقدم المدينة فإنها دار الهجرة والسنة والسلامة وتخلص لاهل الفقه , واشراف الناس وذوي رايهم، قال عمر:" لاقومن في اول مقام اقومه بالمدينة".(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، وَأَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَهُوَ بِمِنًى فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ فَوَجَدَنِي، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ , وَإِنِّي أَرَى أَنْ تُمْهِلَ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ وَالسَّلَامَةِ وَتَخْلُصَ لِأَهْلِ الْفِقْهِ , وَأَشْرَافِ النَّاسِ وَذَوِي رَأْيِهِمْ، قَالَ عُمَرُ:" لَأَقُومَنَّ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھے یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ کی طرف واپس آ رہے تھے۔ یہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج کا واقعہ ہے تو ان کی مجھ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ (عمر رضی اللہ عنہ حاجیوں کو خطاب کرنے والے تھے اس لیے) میں نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین! موسم حج میں معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے سب طرح کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور شور و غل بہت ہوتا ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ اپنا ارادہ موقوف کر دیں اور مدینہ پہنچ کر (خطاب فرمائیں) کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا گھر ہے اور وہاں سمجھدار معزز اور صاحب عقل لوگ رہتے ہیں۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو، مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلی فرصت میں لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے ضرور کھڑا ہوں گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: During the last Hajj led by `Umar, `Abdur-Rahman bin `Auf returned to his family at Mina and met me there. `AbdurRahman said (to `Umar), "O chief of the believers! The season of Hajj is the season when there comes the scum of the people (besides the good amongst them), so I recommend that you should wait till you go back to Medina, for it is the place of Migration and Sunna (i.e. the Prophet's tradition), and there you will be able to refer the matter to the religious scholars and the nobles and the people of wise opinions." `Umar said, "I will speak of it in Medina on my very first sermon I will deliver there."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 265

حدیث نمبر: 4021
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، حدثني ابن عباس، عن عمر رضي الله عنهم: لما توفي النبي صلى الله عليه وسلم، قلت لابي بكر:" انطلق بنا إلى إخواننا من الانصار , فلقينا منهم رجلان صالحان شهدا بدرا , فحدثت به عروة بن الزبير، فقال: هما عويم بن ساعدة , ومعن بن عدي".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ: لَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ:" انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا مِنْ الْأَنْصَارِ , فَلَقِينَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ شَهِدَا بَدْرًا , فَحَدَّثْتُ بِهِ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: هُمَا عُوَيْمُ بْنُ سَاعِدَةَ , وَمَعْنُ بْنُ عَدِيٍّ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا آپ ہمیں ساتھ لے کر ہمارے انصاری بھائیوں کے یہاں چلیں۔ پھر ہماری ملاقات دو نیک ترین انصاری صحابیوں سے ہوئی جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ عبیداللہ نے کہا، پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ عروہ بن زبیر سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ دونوں صحابی عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی رضی اللہ عنہما تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: `Umar said, "When the Prophet died I said to Abu Bakr, 'Let us go to our Ansari brethren.' We met two pious men from them, who had fought in the battle of Badr." When I mentioned this to `Urwa bin Az-Zubair, he said, "Those two pious men were 'Uwaim bin Sa`ida and Manbin Adi."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 356

حدیث نمبر: 6829
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عبيد الله، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال عمر" لقد خشيت ان يطول بالناس زمان، حتى يقول قائل: لا نجد الرجم في كتاب الله، فيضلوا بترك فريضة انزلها الله، الا وإن الرجم حق على من زنى، وقد احصن إذا قامت البينة، او كان الحبل، او الاعتراف"، قال سفيان: كذا حفظت:" الا وقد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجمنا بعده".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ عُمَرُ" لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، حَتَّى يَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، وَقَدْ أَحْصَنَ إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الِاعْتِرَافُ"، قَالَ سُفْيَانُ: كَذَا حَفِظْتُ:" أَلَا وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں زیادہ وقت گزر جائے اور کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو رجم کا حکم ہمیں کہیں نہیں ملتا اور اس طرح وہ اللہ کے ایک فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ رجم کا حکم اس شخص کے لیے فرض ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو بشرطیکہ صحیح شرعی گواہیوں سے ثابت ہو جائے یا حمل ہو یا کوئی خود اقرار کرے۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے اسی طرح یاد کیا تھا آگاہ ہو جاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا تھا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: `Umar said, "I am afraid that after a long time has passed, people may say, "We do not find the Verses of the Rajam (stoning to death) in the Holy Book," and consequently they may go astray by leaving an obligation that Allah has revealed. Lo! I confirm that the penalty of Rajam be inflicted on him who commits illegal sexual intercourse, if he is already married and the crime is proved by witnesses or pregnancy or confession." Sufyan added, "I have memorized this narration in this way." `Umar added, "Surely Allah's Apostle carried out the penalty of Rajam, and so did we after him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 816

حدیث نمبر: 6830
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثني إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود،عن ابن عباس، قال:" كنت اقرئ رجالا من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف، فبينما انا في منزله بمنى، وهو عند عمر بن الخطاب في آخر حجة حجها، إذ رجع إلي عبد الرحمن، فقال لو رايت رجلا اتى امير المؤمنين اليوم، فقال يا امير المؤمنين: هل لك في فلان يقول: لو قد مات عمر، لقد بايعت فلانا، فوالله ما كانت بيعة ابي بكر إلا فلتة فتمت، فغضب عمر، ثم قال: إني إن شاء الله لقائم العشية في الناس فمحذرهم هؤلاء الذين يريدون ان يغصبوهم امورهم، قال عبد الرحمن: فقلت يا امير المؤمنين: لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس وغوغاءهم، فإنهم هم الذين يغلبون على قربك حين تقوم في الناس، وانا اخشى ان تقوم فتقول مقالة يطيرها عنك كل مطير، وان لا يعوها، وان لا يضعوها على مواضعها، فامهل حتى تقدم المدينة، فإنها دار الهجرة والسنة، فتخلص باهل الفقه، واشراف الناس، فتقول ما قلت متمكنا، فيعي اهل العلم مقالتك، ويضعونها على مواضعها، فقال عمر: اما والله إن شاء الله لاقومن بذلك اول مقام اقومه بالمدينة، قال ابن عباس: فقدمنا المدينة في عقب ذي الحجة، فلما كان يوم الجمعة، عجلت الرواح حين زاغت الشمس، حتى اجد سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل جالسا إلى ركن المنبر، فجلست حوله تمس ركبتي ركبته، فلم انشب ان خرج عمر بن الخطاب، فلما رايته مقبلا، قلت لسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل: ليقولن العشية مقالة لم يقلها منذ استخلف، فانكر علي، وقال: ما عسيت ان يقول ما لم يقل قبله، فجلس عمر على المنبر، فلما سكت المؤذنون، قام فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد، فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي ان اقولها، لا ادري لعلها بين يدي اجلي، فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته، ومن خشي ان لا يعقلها فلا احل لاحد ان يكذب علي، إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، وانزل عليه الكتاب، فكان مما انزل الله آية الرجم، فقراناها وعقلناها ووعيناها، رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، فاخشى إن طال بالناس زمان، ان يقول قائل: والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله، فيضلوا بترك فريضة انزلها الله، والرجم في كتاب الله حق على من زنى، إذا احصن من الرجال والنساء، إذا قامت البينة، او كان الحبل، او الاعتراف، ثم إنا كنا نقرا فيما نقرا من كتاب الله، ان لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم، ان ترغبوا عن آبائكم، او إن كفرا بكم ان ترغبوا عن آبائكم، الا ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا تطروني كما اطري عيسى ابن مريم، وقولوا: عبد الله ورسوله، ثم إنه بلغني ان قائلا منكم، يقول: والله لو قد مات عمر بايعت فلانا، فلا يغترن امرؤ ان، يقول: إنما كانت بيعة ابي بكر فلتة وتمت، الا وإنها قد كانت كذلك، ولكن الله وقى شرها، وليس منكم من تقطع الاعناق إليه مثل ابي بكر، من بايع رجلا عن غير مشورة من المسلمين، فلا يبايع هو: ولا الذي بايعه تغرة ان يقتلا، وإنه قد كان من خبرنا حين توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، ان الانصار خالفونا، واجتمعوا باسرهم في سقيفة بني ساعدة، وخالف عنا علي، والزبير، ومن معهما، واجتمع المهاجرون إلى ابي بكر، فقلت لابي بكر: يا ابا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الانصار، فانطلقنا نريدهم، فلما دنونا منهم، لقينا منهم رجلان صالحان، فذكرا ما تمالا عليه القوم، فقالا: اين تريدون يا معشر المهاجرين؟ فقلنا: نريد إخواننا هؤلاء من الانصار، فقالا: لا عليكم ان لا تقربوهم، اقضوا امركم، فقلت: والله لناتينهم، فانطلقنا حتى اتيناهم في سقيفة بني ساعدة، فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم، فقلت من هذا: فقالوا: هذا سعد بن عبادة، فقلت: ما له قالوا: يوعك، فلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد: فنحن انصار الله وكتيبة الإسلام، وانتم معشر المهاجرين رهط وقد دفت دافة من قومكم، فإذا هم يريدون ان يختزلونا من اصلنا، وان يحضنونا من الامر، فلما سكت، اردت ان اتكلم، وكنت قد زورت مقالة اعجبتني، اريد ان اقدمها بين يدي ابي بكر، وكنت اداري منه بعض الحد، فلما اردت ان اتكلم، قال ابو بكر: على رسلك، فكرهت ان اغضبه، فتكلم ابو بكر، فكان هو احلم مني، واوقر والله ما ترك من كلمة اعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها، او افضل منها، حتى سكت، فقال: ما ذكرتم فيكم من خير فانتم له اهل، ولن يعرف هذا الامر إلا لهذا الحي من قريش، هم اوسط العرب نسبا، ودارا، وقد رضيت لكم احد هذين الرجلين، فبايعوا ايهما شئتم، فاخذ بيدي وبيد ابي عبيدة بن الجراح، وهو جالس بيننا فلم اكره مما قال غيرها، كان والله ان اقدم فتضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم، احب إلي من ان اتامر على قوم فيهم ابو بكر، اللهم إلا ان تسول إلي نفسي عند الموت شيئا لا اجده الآن، فقال قائل من الانصار: انا جذيلها المحكك، وعذيقها المرجب، منا امير ومنكم امير يا معشر قريش، فكثر اللغط وارتفعت الاصوات حتى فرقت من الاختلاف، فقلت: ابسط يدك يا ابا بكر، فبسط يده، فبايعته، وبايعه المهاجرون، ثم بايعته الانصار، ونزونا على سعد بن عبادة، فقال قائل منهم: قتلتم سعد بن عبادة، فقلت: قتل الله سعد بن عبادة، قال عمر وإنا: والله ما وجدنا فيما حضرنا من امر اقوى من مبايعة ابي بكر، خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة، ان يبايعوا رجلا منهم بعدنا، فإما بايعناهم على ما لا نرضى، وإما نخالفهم فيكون فساد، فمن بايع رجلا على غير مشورة من المسلمين، فلا يتابع هو ولا الذي بايعه تغرة ان يقتلا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى، وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا، إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ الْيَوْمَ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ: لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ، لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا، فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً فَتَمَّتْ، فَغَضِبَ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَقَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أُمُورَهُمْ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ، فَإِنَّهُمْ هُمُ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى قُرْبِكَ حِينَ تَقُومُ فِي النَّاسِ، وَأَنَا أَخْشَى أَنْ تَقُومَ فَتَقُولَ مَقَالَةً يُطَيِّرُهَا عَنْكَ كُلُّ مُطَيِّرٍ، وَأَنْ لَا يَعُوهَا، وَأَنْ لَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ، فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ، وَأَشْرَافِ النَّاسِ، فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا، فَيَعِي أَهْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَكَ، وَيَضَعُونَهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأَقُومَنَّ بِذَلِكَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عُقْبِ ذِي الْحَجَّةِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى أَجِدَ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ جَالِسًا إِلَى رُكْنِ الْمِنْبَرِ، فَجَلَسْتُ حَوْلَهُ تَمَسُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ مُقْبِلًا، قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ: لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ مَقَالَةً لَمْ يَقُلْهَا مُنْذُ اسْتُخْلِفَ، فَأَنْكَرَ عَلَيَّ، وَقَالَ: مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ قَبْلَهُ، فَجَلَسَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ، قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي قَائِلٌ لَكُمْ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا، لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي، فَمَنْ عَقَلَهَا وَوَعَاهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، وَمَنْ خَشِيَ أَنْ لَا يَعْقِلَهَا فَلَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا، رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الِاعْتِرَافُ، ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، أَنْ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ، أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، أَلَا ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ، يَقُولُ: وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا، فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ، يَقُولَ: إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا، وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ، مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَا يُبَايَعُ هُوَ: وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا، وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَمَنْ مَعَهُمَا، وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ، لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ، فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، فَقَالَا: أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ؟ فَقُلْنَا: نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ، اقْضُوا أَمْرَكُمْ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا: فَقَالُوا: هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: مَا لَهُ قَالُوا: يُوعَكُ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ: فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ، وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ، فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، فَلَمَّا سَكَتَ، أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي، أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ، وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: عَلَى رِسْلِكَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي، وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا، أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا، حَتَّى سَكَتَ، فَقَالَ: مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا، وَدَارًا، وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ، فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا، كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ، وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنَ الِاخْتِلَافِ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، فَبَسَطَ يَدَهُ، فَبَايَعْتُهُ، وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ، ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ، وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا: وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ، خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ، أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا، فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى، وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ، فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَا يُتَابَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: I used to teach (the Qur'an to) some people of the Muhajirln (emigrants), among whom there was `Abdur Rahman bin `Auf. While I was in his house at Mina, and he was with `Umar bin Al-Khattab during `Umar's last Hajj, `Abdur-Rahman came to me and said, "Would that you had seen the man who came today to the Chief of the Believers (`Umar), saying, 'O Chief of the Believers! What do you think about so-and-so who says, 'If `Umar should die, I will give the pledge of allegiance to such-andsuch person, as by Allah, the pledge of allegiance to Abu Bakr was nothing but a prompt sudden action which got established afterwards.' `Umar became angry and then said, 'Allah willing, I will stand before the people tonight and warn them against those people who want to deprive the others of their rights (the question of rulership). `Abdur-Rahman said, "I said, 'O Chief of the believers! Do not do that, for the season of Hajj gathers the riff-raff and the rubble, and it will be they who will gather around you when you stand to address the people. And I am afraid that you will get up and say something, and some people will spread your statement and may not say what you have actually said and may not understand its meaning, and may interpret it incorrectly, so you should wait till you reach Medina, as it is the place of emigration and the place of Prophet's Traditions, and there you can come in touch with the learned and noble people, and tell them your ideas with confidence; and the learned people will understand your statement and put it in its proper place.' On that, `Umar said, 'By Allah! Allah willing, I will do this in the first speech I will deliver before the people in Medina." Ibn `Abbas added: We reached Medina by the end of the month of Dhul-Hijja, and when it was Friday, we went quickly (to the mosque) as soon as the sun had declined, and I saw Sa`id bin Zaid bin `Amr bin Nufail sitting at the corner of the pulpit, and I too sat close to him so that my knee was touching his knee, and after a short while `Umar bin Al-Khattab came out, and when I saw him coming towards us, I said to Sa`id bin Zaid bin `Amr bin Nufail "Today `Umar will say such a thing as he has never said since he was chosen as Caliph." Sa`id denied my statement with astonishment and said, "What thing do you expect `Umar to say the like of which he has never said before?" In the meantime, `Umar sat on the pulpit and when the callmakers for the prayer had finished their call, `Umar stood up, and having glorified and praised Allah as He deserved, he said, "Now then, I am going to tell you something which (Allah) has written for me to say. I do not know; perhaps it portends my death, so whoever understands and remembers it, must narrate it to the others wherever his mount takes him, but if somebody is afraid that he does not understand it, then it is unlawful for him to tell lies about me. Allah sent Muhammad with the Truth and revealed the Holy Book to him, and among what Allah revealed, was the Verse of the Rajam (the stoning of married person (male & female) who commits illegal sexual intercourse, and we did recite this Verse and understood and memorized it. Allah's Apostle did carry out the punishment of stoning and so did we after him. I am afraid that after a long time has passed, somebody will say, 'By Allah, we do not find the Verse of the Rajam in Allah's Book,' and thus they will go astray by leaving an obligation which Allah has revealed. And the punishment of the Rajam is to be inflicted to any married person (male & female), who commits illegal sexual intercourse, if the required evidence is available or there is conception or confession. And then we used to recite among the Verses in Allah's Book: 'O people! Do not claim to be the offspring of other than your fathers, as it is disbelief (unthankfulness) on your part that you claim to be the offspring of other than your real father.' Then Allah's Apostle said, 'Do not praise me excessively as Jesus, son of Marry was praised, but call me Allah's Slave and His Apostles.' (O people!) I have been informed that a speaker amongst you says, 'By Allah, if `Umar should die, I will give the pledge of allegiance to such-and-such person.' One should not deceive oneself by saying that the pledge of allegiance given to Abu Bakr was given suddenly and it was successful. No doubt, it was like that, but Allah saved (the people) from its evil, and there is none among you who has the qualities of Abu Bakr. Remember that whoever gives the pledge of allegiance to anybody among you without consulting the other Muslims, neither that person, nor the person to whom the pledge of allegiance was given, are to be supported, lest they both should be killed. And no doubt after the death of the Prophet we were informed that the Ansar disagreed with us and gathered in the shed of Bani Sa`da. `Ali and Zubair and whoever was with them, opposed us, while the emigrants gathered with Abu Bakr. I said to Abu Bakr, 'Let's go to these Ansari brothers of ours.' So we set out seeking them, and when we approached them, two pious men of theirs met us and informed us of the final decision of the Ansar, and said, 'O group of Muhajirin (emigrants) ! Where are you going?' We replied, 'We are going to these Ansari brothers of ours.' They said to us, 'You shouldn't go near them. Carry out whatever we have already decided.' I said, 'By Allah, we will go to them.' And so we proceeded until we reached them at the shed of Bani Sa`da. Behold! There was a man sitting amongst them and wrapped in something. I asked, 'Who is that man?' They said, 'He is Sa`d bin 'Ubada.' I asked, 'What is wrong with him?' They said, 'He is sick.' After we sat for a while, the Ansar's speaker said, 'None has the right to be worshipped but Allah,' and praising Allah as He deserved, he added, 'To proceed, we are Allah's Ansar (helpers) and the majority of the Muslim army, while you, the emigrants, are a small group and some people among you came with the intention of preventing us from practicing this matter (of caliphate) and depriving us of it.' When the speaker had finished, I intended to speak as I had prepared a speech which I liked and which I wanted to deliver in the presence of Abu Bakr, and I used to avoid provoking him. So, when I wanted to speak, Abu Bakr said, 'Wait a while.' I disliked to make him angry. So Abu Bakr himself gave a speech, and he was wiser and more patient than I. By Allah, he never missed a sentence that I liked in my own prepared speech, but he said the like of it or better than it spontaneously. After a pause he said, 'O Ansar! You deserve all (the qualities that you have attributed to yourselves, but this question (of Caliphate) is only for the Quraish as they are the best of the Arabs as regards descent and home, and I am pleased to suggest that you choose either of these two men, so take the oath of allegiance to either of them as you wish. And then Abu Bakr held my hand and Abu Ubada bin `Abdullah's hand who was sitting amongst us. I hated nothing of what he had said except that proposal, for by Allah, I would rather have my neck chopped off as expiator for a sin than become the ruler of a nation, one of whose members is Abu Bakr, unless at the time of my death my own-self suggests something I don't feel at present.' And then one of the Ansar said, 'I am the pillar on which the camel with a skin disease (eczema) rubs itself to satisfy the itching (i.e., I am a noble), and I am as a high class palm tree! O Quraish. There should be one ruler from us and one from you.' Then there was a hue and cry among the gathering and their voices rose so that I was afraid there might be great disagreement, so I said, 'O Abu Bakr! Hold your hand out.' He held his hand out and I pledged allegiance to him, and then all the emigrants gave the Pledge of allegiance and so did the Ansar afterwards. And so we became victorious over Sa`d bin Ubada (whom Al-Ansar wanted to make a ruler). One of the Ansar said, 'You have killed Sa`d bin Ubada.' I replied, 'Allah has killed Sa`d bin Ubada.' `Umar added, "By Allah, apart from the great tragedy that had happened to us (i.e. the death of the Prophet), there was no greater problem than the allegiance pledged to Abu Bakr because we were afraid that if we left the people, they might give the Pledge of allegiance after us to one of their men, in which case we would have given them our consent for something against our real wish, or would have opposed them and caused great trouble. So if any person gives the Pledge of allegiance to somebody (to become a Caliph) without consulting the other Muslims, then the one he has selected should not be granted allegiance, lest both of them should be killed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 817

حدیث نمبر: 7323
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، قال: حدثني ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" كنت اقرئ عبد الرحمن بن عوف، فلما كان آخر حجة حجها عمر، فقال عبد الرحمن: بمنى لو شهدت امير المؤمنين اتاه رجل، قال: إن فلانا، يقول: لو مات امير المؤمنين لبايعنا فلانا، فقال عمر: لاقومن العشية، فاحذر هؤلاء الرهط الذين يريدون ان يغصبوهم، قلت: لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس يغلبون على مجلسك فاخاف ان لا ينزلوها على وجهها، فيطير بها كل مطير، فامهل حتى تقدم المدينة دار الهجرة ودار السنة، فتخلص باصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من المهاجرين، والانصار فيحفظوا مقالتك وينزلوها على وجهها، فقال: والله لاقومن به في اول مقام اقومه بالمدينة، قال ابن عباس: فقدمنا المدينة، فقال: إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وانزل عليه الكتاب فكان فيما انزل آية الرجم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنْتُ أُقْرِئُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: بِمِنًى لَوْ شَهِدْتَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَاهُ رَجُلٌ، قَالَ: إِنَّ فُلَانًا، يَقُولُ: لَوْ مَاتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَبَايَعْنَا فُلَانًا، فَقَالَ عُمَرُ: لَأَقُومَنَّ الْعَشِيَّةَ، فَأُحَذِّرَ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ، قُلْتُ: لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ يَغْلِبُونَ عَلَى مَجْلِسِكَ فَأَخَافُ أَنْ لَا يُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا، فَيُطِيرُ بِهَا كُلُّ مُطِيرٍ، فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ دَارَ الْهِجْرَةِ وَدَارَ السُّنَّةِ، فَتَخْلُصَ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ فَيَحْفَظُوا مَقَالَتَكَ وَيُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَأَقُومَنَّ بِهِ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ فَكَانَ فِيمَا أُنْزِلَ آيَةُ الرَّجْمِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ جب وہ آخری حج آیا جو عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا تو عبدالرحمٰن نے منیٰ میں مجھ سے کہا کاش تم امیرالمؤمنین کو آج دیکھتے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ اگر امیرالمؤمنین کا انتقال ہو جائے تو ہم فلاں سے بیعت کر لیں گے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آج سہ پہر کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سناؤں گا اور ان کو ڈراؤں کا جو (عام مسلمانوں کے حق کو) غصب کرنا چاہتے ہیں اور خود اپنی رائے سے امیر منتخب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ موسم حج میں ہر طرح کے ناواقف اور معمولی لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کثرت سے آپ کی مجلس میں جمع ہو جائیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کی بات کا صحیح مطلب نہ سمجھ کر کچھ اور معنیٰ نہ کر لیں اور اسے منہ در منہ اڑاتے پھریں۔ اس لیے ابھی توقف کیجئے۔ جب آپ مدینے پہنچیں جو دار الہجرت اور دار السنہ ہے تو وہاں آپ کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، مہاجرین و انصار خالص ایسے ہی لوگ ملیں گے وہ آپ کی بات کو یاد رکھیں گے اور اس کا مطلب بھی ٹھیک بیان کریں گے۔ اس پر امیرالمؤمنین نے کہا کہ واللہ! میں مدینہ پہنچ کر جو پہلا خطبہ دوں گا اس میں اس کا بیان کروں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینے آئے تو عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے برآمد ہوئے اور خطبہ سنایا۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر قرآن اتارا، اس قرآن میں رجم کی آیت بھی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn 'Abbas: I used to teach Qur'an to 'Abdur-Rahman bin Auf. When Umar performed his last Hajj, 'Abdur-Rahman said (to me) at Mina, "Would that you had seen Chief of the believers today! A man came to him and said, "So-and-so has said, "If Chief of the Believers died, we will give the oath of allegiance to such-and-such person,' 'Umar said, 'I will get up tonight and warn those who want to usurp the people's rights.' I said, 'Do not do so, for the season (of Hajj) gathers the riffraff mob who will form the majority of your audience, and I am afraid that they will not understand (the meaning of) your saying properly and may spread (an incorrect statement) everywhere. You should wait till we reach Medina, the place of migration and the place of the Sunna (the Prophet's Traditions). There you will meet the companions of Allah's Apostle from the Muhajirin and the Ansar who will understand your statement and place it in its proper position' 'Umar said, 'By Allah, I shall do so the first time I stand (to address the people) in Medina.' When we reached Medina, 'Umar (in a Friday Khutba-sermon) said, "No doubt, Allah sent Muhammad with the Truth and revealed to him the Book (Quran), and among what was revealed, was the Verse of Ar-Rajm (stoning adulterers to death).'" (See Hadith No. 817,Vol. 8)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 424


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.