(موقوف) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير بن عبد الحميد، حدثنا حصين بن عبد الرحمن، عن عمرو بن ميمون الاودي , قال: رايت عمر بن الخطاب رضي الله عنه , قال: يا عبد الله بن عمر اذهب إلى ام المؤمنين عائشة رضي الله عنها , فقل: يقرا عمر بن الخطاب عليك السلام، ثم سلها ان ادفن مع صاحبي، قالت: كنت اريده لنفسي فلاوثرنه اليوم على نفسي، فلما اقبل , قال له: ما لديك؟ , قال: اذنت لك يا امير المؤمنين، قال: ما كان شيء اهم إلي من ذلك المضجع، فإذا قبضت فاحملوني، ثم سلموا، ثم قل: يستاذن عمر بن الخطاب، فإن اذنت لي فادفنوني، وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين، إني لا اعلم احدا احق بهذا الامر من هؤلاء النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فمن استخلفوا بعدي فهو الخليفة فاسمعوا له واطيعوا، فسمى عثمان، وعليا، وطلحة , والزبير، وعبد الرحمن بن عوف، وسعد بن ابي وقاص، وولج عليه شاب من الانصار , فقال: ابشر يا امير المؤمنين ببشرى الله كان لك من القدم في الإسلام ما قد علمت، ثم استخلفت فعدلت، ثم الشهادة بعد هذا كله، فقال: ليتني يا ابن اخي، وذلك كفافا لا علي ولا لي اوصي الخليفة من بعدي بالمهاجرين الاولين خيرا ان يعرف لهم حقهم وان يحفظ لهم حرمتهم، واوصيه بالانصار خيرا الذين تبوءوا الدار والإيمان ان يقبل من محسنهم ويعفى عن مسيئهم، واوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم ان يوفى لهم بعهدهم، وان يقاتل من ورائهم وان لا يكلفوا فوق طاقتهم".(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ , قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , فَقُلْ: يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ، قَالَتْ: كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي، فَلَمَّا أَقْبَلَ , قَالَ لَهُ: مَا لَدَيْكَ؟ , قَالَ: أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي، ثُمَّ سَلِّمُوا، ثُمَّ قُلْ: يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي، وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَمَنِ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، فَسَمَّى عُثْمَانَ، وَعَلِيًّا، وَطَلْحَةَ , وَالزُّبَيْرَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ , فَقَالَ: أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنَ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ، ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ، ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ، فَقَالَ: لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي، وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ، وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ، وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہو جائے تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کر دینا ‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ میں اس امر خلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں ‘ خلیفہ وہی ہو گا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر عثمان ‘ علی ‘ طلحہ ‘ زبیر ‘ عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو ‘ اللہ عزوجل کی طرف سے ‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاو رکھے ‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاو رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ (میری وصیت ہے کہ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے (یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کر لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
Narrated `Amr bin Maimun Al-Audi: I saw `Umar bin Al-Khattab (when he was stabbed) saying, "O `Abdullah bin `Umar! Go to the mother of the believers Aisha and say, `Umar bin Al-Khattab sends his greetings to you,' and request her to allow me to be buried with my companions." (So, Ibn `Umar conveyed the message to `Aisha.) She said, "I had the idea of having this place for myself but today I prefer him (`Umar) to myself (and allow him to be buried there)." When `Abdullah bin `Umar returned, `Umar asked him, "What (news) do you have?" He replied, "O chief of the believers! She has allowed you (to be buried there)." On that `Umar said, "Nothing was more important to me than to be buried in that (sacred) place. So, when I expire, carry me there and pay my greetings to her (`Aisha ) and say, `Umar bin Al-Khattab asks permission; and if she gives permission, then bury me (there) and if she does not, then take me to the graveyard of the Muslims. I do not think any person has more right for the caliphate than those with whom Allah's Apostle (p.b.u.h) was always pleased till his death. And whoever is chosen by the people after me will be the caliph, and you people must listen to him and obey him," and then he mentioned the name of `Uthman, `Ali, Talha, Az-Zubair, `Abdur-Rahman bin `Auf and Sa`d bin Abi Waqqas. By this time a young man from Ansar came and said, "O chief of the believers! Be happy with Allah's glad tidings. The grade which you have in Islam is known to you, then you became the caliph and you ruled with justice and then you have been awarded martyrdom after all this." `Umar replied, "O son of my brother! Would that all that privileges will counterbalance (my short comings), so that I neither lose nor gain anything. I recommend my successor to be good to the early emigrants and realize their rights and to protect their honor and sacred things. And I also recommend him to be good to the Ansar who before them, had homes (in Medina) and had adopted the Faith. He should accept the good of the righteous among them and should excuse their wrongdoers. I recommend him to abide by the rules and regulations concerning the Dhimmis (protectees) of Allah and His Apostle, to fulfill their contracts completely and fight for them and not to tax (overburden) them beyond their capabilities."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 475
(موقوف) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن حصين، عن عمرو بن ميمون، عن عمر رضي الله عنه، قال:" واوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم ان يوفى لهم بعهدهم، وان يقاتل من ورائهم ولا يكلفوا إلا طاقتهم".(موقوف) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَلَا يُكَلَّفُوا إِلَّا طَاقَتَهُمْ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ انہیں حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے عمرو بن میمون نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے (وفات سے تھوڑی دیر پہلے) فرمایا کہ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو اس کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا (ذمیوں سے) جو عہد ہے اس کو وہ پورا کرے اور یہ کہ ان کی حمایت میں ان کے دشمنوں سے جنگ کرے اور ان کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے۔
Narrated `Amr bin Maimun: `Umar (after he was stabbed), instructed (his would-be-successor) saying, "I urge him (i.e. the new Caliph) to take care of those non-Muslims who are under the protection of Allah and His Apostle in that he should observe the convention agreed upon with them, and fight on their behalf (to secure their safety) and he should not over-tax them beyond their capability."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 287
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جویریہ بن قدامہ تمیمی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، (جب وہ زخمی ہوئے) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے! تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی (جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں (کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا) کیونکہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ ہے اور تمہارے گھر والوں کی روزی ہے (کہ جزیہ کے روپیہ سے تمہارے بال بچوں کی گزران ہوتی ہے)۔
Narrated Juwairiya bin Qudama at-Tamimi: We said to `Umar bin Al-Khattab, Jo Chief of the believers! Advise us." He said, "I advise you to fulfill Allah's Convention (made with the Dhimmis) as it is the convention of your Prophet and the source of the livelihood of your dependents (i.e. the taxes from the Dhimmis.) "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 388
(موقوف) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن حصين، عن عمرو بن ميمون، قال: رايت عمر بن الخطاب رضي الله عنه قبل ان يصاب بايام بالمدينة وقف على حذيفة بن اليمان وعثمان بن حنيف، قال:" كيف فعلتما اتخافان ان تكونا قد حملتما الارض ما لا تطيق؟، قالا: حملناها امرا هي له مطيقة ما فيها كبير فضل، قال: انظرا ان تكونا حملتما الارض ما لا تطيق، قال: قالا لا، فقال عمر: لئن سلمني الله لادعن ارامل اهل العراق لا يحتجن إلى رجل بعدي ابدا، قال: فما اتت عليه إلا رابعة حتى اصيب، قال: إني لقائم ما بيني وبينه إلا عبد الله بن عباس غداة اصيب وكان إذا مر بين الصفين، قال: استووا حتى إذا لم ير فيهن خللا تقدم فكبر وربما قرا سورة يوسف او النحل او نحو ذلك في الركعة الاولى حتى يجتمع الناس فما هو إلا ان كبر فسمعته، يقول: قتلني او اكلني الكلب حين طعنه فطار العلج بسكين ذات طرفين لا يمر على احد يمينا ولا شمالا إلا طعنه , حتى طعن ثلاثة عشر رجلا مات منهم سبعة، فلما راى ذلك رجل من المسلمين طرح عليه برنسا، فلما ظن العلج انه ماخوذ نحر نفسه وتناول عمر يد عبد الرحمن بن عوف، فقدمه فمن يلي عمر فقد راى الذي ارى واما نواحي المسجد فإنهم لا يدرون غير انهم قد فقدوا صوت عمر، وهم يقولون: سبحان الله سبحان الله , فصلى بهم عبد الرحمن صلاة خفيفة فلما انصرفوا، قال: يا ابن عباس انظر من قتلني فجال ساعة ثم جاء، فقال: غلام المغيرة، قال: الصنع، قال: نعم، قال: قاتله الله لقد امرت به معروفا الحمد لله الذي لم يجعل ميتتي بيد رجل يدعي الإسلام قد كنت انت وابوك تحبان ان تكثر العلوج بالمدينة وكان العباس اكثرهم رقيقا، فقال: إن شئت فعلت اي إن شئت قتلنا، قال: كذبت بعد ما تكلموا بلسانكم وصلوا قبلتكم وحجوا حجكم فاحتمل إلى بيته فانطلقنا معه وكان الناس لم تصبهم مصيبة قبل يومئذ فقائل، يقول: لا باس وقائل، يقول: اخاف عليه فاتي بنبيذ فشربه , فخرج من جوفه , ثم اتي بلبن فشربه فخرج من جرحه , فعلموا انه ميت فدخلنا عليه وجاء الناس يثنون عليه وجاء رجل شاب، فقال: ابشر يا امير المؤمنين ببشرى الله لك من صحبة رسول الله صلى الله عليه وسلم وقدم في الإسلام ما قد علمت ثم وليت فعدلت ثم شهادة، قال: وددت ان ذلك كفاف لا علي ولا لي فلما ادبر إذا إزاره يمس الارض، قال: ردوا علي الغلام، قال: يا ابن اخي ارفع ثوبك فإنه ابقى لثوبك واتقى لربك يا عبد الله بن عمر انظر ما علي من الدين فحسبوه فوجدوه ستة وثمانين الفا او نحوه، قال: إن وفى له مال آل عمر فاده من اموالهم وإلا فسل في بني عدي بن كعب , فإن لم تف اموالهم فسل في قريش ولا تعدهم إلى غيرهم فاد عني هذا المال , انطلق إلى عائشة ام المؤمنين فقل يقرا عليك عمر السلام ولا تقل امير المؤمنين فإني لست اليوم للمؤمنين اميرا , وقل يستاذن عمر بن الخطاب ان يدفن مع صاحبيه فسلم واستاذن ثم دخل عليها فوجدها قاعدة تبكي، فقال: يقرا عليك عمر بن الخطاب السلام ويستاذن ان يدفن مع صاحبيه، فقالت: كنت اريده لنفسي ولاوثرن به اليوم على نفسي , فلما اقبل قيل هذا عبد الله بن عمر قد جاء، قال: ارفعوني فاسنده رجل إليه، فقال: ما لديك، قال: الذي تحب يا امير المؤمنين اذنت، قال: الحمد لله ما كان من شيء اهم إلي من ذلك فإذا انا قضيت فاحملوني ثم سلم فقل يستاذن عمر بن الخطاب فإن اذنت لي فادخلوني وإن ردتني ردوني إلى مقابر المسلمين , وجاءت ام المؤمنين حفصة والنساء تسير معها فلما رايناها قمنا , فولجت عليه فبكت عنده ساعة واستاذن الرجال فولجت داخلا لهم فسمعنا بكاءها من الداخل، فقالوا: اوص يا امير المؤمنين استخلف، قال: ما اجد احدا احق بهذا الامر من هؤلاء النفر او الرهط الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض فسمى عليا , وعثمان , والزبير , وطلحة , وسعدا , وعبد الرحمن، وقال: يشهدكم عبد الله بن عمر وليس له من الامر شيء كهيئة التعزية له فإن اصابت الإمرة سعدا فهو ذاك وإلا فليستعن به ايكم ما امر فإني لم اعزله عن عجز ولا خيانة، وقال:" اوصي الخليفة من بعدي بالمهاجرين الاولين ان يعرف لهم حقهم ويحفظ لهم حرمتهم , واوصيه بالانصار خيرا الذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم ان يقبل من محسنهم وان يعفى عن مسيئهم واوصيه باهل الامصار خيرا فإنهم ردء الإسلام وجباة المال وغيظ العدو , وان لا يؤخذ منهم إلا فضلهم عن رضاهم واوصيه بالاعراب خيرا فإنهم اصل العرب ومادة الإسلام ان يؤخذ من حواشي اموالهم وترد على فقرائهم , واوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم ان يوفى لهم بعهدهم وان يقاتل من ورائهم ولا يكلفوا إلا طاقتهم" , فلما قبض خرجنا به فانطلقنا نمشي فسلم عبد الله بن عمر، قال: يستاذن عمر بن الخطاب، قالت: ادخلوه فادخل فوضع هنالك مع صاحبيه فلما فرغ من دفنه اجتمع هؤلاء الرهط، فقال: عبد الرحمن اجعلوا امركم إلى ثلاثة منكم، فقال: الزبير قد جعلت امري إلى علي، فقال: طلحة قد جعلت امري إلى عثمان، وقال سعد: قد جعلت امري إلى عبد الرحمن بن عوف، فقال عبد الرحمن: ايكما تبرا من هذا الامر فنجعله إليه والله عليه والإسلام لينظرن افضلهم في نفسه فاسكت الشيخان، فقال عبد الرحمن: افتجعلونه إلي والله علي ان لا آل عن افضلكم، قالا: نعم فاخذ بيد احدهما، فقال: لك قرابة من رسول الله صلى الله عليه وسلم والقدم في الإسلام ما قد علمت فالله عليك لئن امرتك لتعدلن ولئن امرت عثمان لتسمعن ولتطيعن ثم خلا بالآخر، فقال له: مثل ذلك فلما اخذ الميثاق، قال: ارفع يدك يا عثمان فبايعه فبايع له علي وولج اهل الدار فبايعوه. (موقوف) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبْلَ أَنْ يُصَابَ بِأَيَّامٍ بِالْمَدِينَةِ وَقَفَ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَعُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ:" كَيْفَ فَعَلْتُمَا أَتَخَافَانِ أَنْ تَكُونَا قَدْ حَمَّلْتُمَا الْأَرْضَ مَا لَا تُطِيقُ؟، قَالَا: حَمَّلْنَاهَا أَمْرًا هِيَ لَهُ مُطِيقَةٌ مَا فِيهَا كَبِيرُ فَضْلٍ، قَالَ: انْظُرَا أَنْ تَكُونَا حَمَّلْتُمَا الْأَرْضَ مَا لَا تُطِيقُ، قَالَ: قَالَا لَا، فَقَالَ عُمَرُ: لَئِنْ سَلَّمَنِي اللَّهُ لَأَدَعَنَّ أَرَامِلَ أَهْلِ الْعِرَاقِ لَا يَحْتَجْنَ إِلَى رَجُلٍ بَعْدِي أَبَدًا، قَالَ: فَمَا أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا رَابِعَةٌ حَتَّى أُصِيبَ، قَالَ: إِنِّي لَقَائِمٌ مَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ غَدَاةَ أُصِيبَ وَكَانَ إِذَا مَرَّ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ، قَالَ: اسْتَوُوا حَتَّى إِذَا لَمْ يَرَ فِيهِنَّ خَلَلًا تَقَدَّمَ فَكَبَّرَ وَرُبَّمَا قَرَأَ سُورَةَ يُوسُفَ أَوْ النَّحْلَ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ فَمَا هُوَ إِلَّا أَنْ كَبَّرَ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: قَتَلَنِي أَوْ أَكَلَنِي الْكَلْبُ حِينَ طَعَنَهُ فَطَارَ الْعِلْجُ بِسِكِّينٍ ذَاتِ طَرَفَيْنِ لَا يَمُرُّ عَلَى أَحَدٍ يَمِينًا وَلَا شِمَالًا إِلَّا طَعَنَهُ , حَتَّى طَعَنَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَاتَ مِنْهُمْ سَبْعَةٌ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ طَرَحَ عَلَيْهِ بُرْنُسًا، فَلَمَّا ظَنَّ الْعِلْجُ أَنَّهُ مَأْخُوذٌ نَحَرَ نَفْسَهُ وَتَنَاوَلَ عُمَرُ يَدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَدَّمَهُ فَمَنْ يَلِي عُمَرَ فَقَدْ رَأَى الَّذِي أَرَى وَأَمَّا نَوَاحِي الْمَسْجِدِ فَإِنَّهُمْ لَا يَدْرُونَ غَيْرَ أَنَّهُمْ قَدْ فَقَدُوا صَوْتَ عُمَرَ، وَهُمْ يَقُولُونَ: سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ , فَصَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ صَلَاةً خَفِيفَةً فَلَمَّا انْصَرَفُوا، قَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ انْظُرْ مَنْ قَتَلَنِي فَجَالَ سَاعَةً ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: غُلَامُ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: الصَّنَعُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قَاتَلَهُ اللَّهُ لَقَدْ أَمَرْتُ بِهِ مَعْرُوفًا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَجْعَلْ مِيتَتِي بِيَدِ رَجُلٍ يَدَّعِي الْإِسْلَامَ قَدْ كُنْتَ أَنْتَ وَأَبُوكَ تُحِبَّانِ أَنْ تَكْثُرَ الْعُلُوجُ بِالْمَدِينَةِ وَكَانَ الْعَبَّاسُ أَكْثَرَهُمْ رَقِيقًا، فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ فَعَلْتُ أَيْ إِنْ شِئْتَ قَتَلْنَا، قَالَ: كَذَبْتَ بَعْدَ مَا تَكَلَّمُوا بِلِسَانِكُمْ وَصَلَّوْا قِبْلَتَكُمْ وَحَجُّوا حَجَّكُمْ فَاحْتُمِلَ إِلَى بَيْتِهِ فَانْطَلَقْنَا مَعَهُ وَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ تُصِبْهُمْ مُصِيبَةٌ قَبْلَ يَوْمَئِذٍ فَقَائِلٌ، يَقُولُ: لَا بَأْسَ وَقَائِلٌ، يَقُولُ: أَخَافُ عَلَيْهِ فَأُتِيَ بِنَبِيذٍ فَشَرِبَهُ , فَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ , ثُمَّ أُتِيَ بِلَبَنٍ فَشَرِبَهُ فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِهِ , فَعَلِمُوا أَنَّهُ مَيِّتٌ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَجَاءَ النَّاسُ يُثْنُونَ عَلَيْهِ وَجَاءَ رَجُلٌ شَابٌّ، فَقَالَ: أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ لَكَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدَمٍ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ وَلِيتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ شَهَادَةٌ، قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَفَافٌ لَا عَلَيَّ وَلَا لِي فَلَمَّا أَدْبَرَ إِذَا إِزَارُهُ يَمَسُّ الْأَرْضَ، قَالَ: رُدُّوا عَلَيَّ الْغُلَامَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي ارْفَعْ ثَوْبَكَ فَإِنَّهُ أَبْقَى لِثَوْبِكَ وَأَتْقَى لِرَبِّكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ انْظُرْ مَا عَلَيَّ مِنَ الدَّيْنِ فَحَسَبُوهُ فَوَجَدُوهُ سِتَّةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ: إِنْ وَفَى لَهُ مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّهِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَإِلَّا فَسَلْ فِي بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ , فَإِنْ لَمْ تَفِ أَمْوَالُهُمْ فَسَلْ فِي قُرَيْشٍ وَلَا تَعْدُهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ فَأَدِّ عَنِّي هَذَا الْمَالَ , انْطَلِقْ إِلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فَقُلْ يَقْرَأُ عَلَيْكِ عُمَرُ السَّلَامَ وَلَا تَقُلْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنِّي لَسْتُ الْيَوْمَ لِلْمُؤْمِنِينَ أَمِيرًا , وَقُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ يُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيْهِ فَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهَا فَوَجَدَهَا قَاعِدَةً تَبْكِي، فَقَالَ: يَقْرَأُ عَلَيْكِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ السَّلَامَ وَيَسْتَأْذِنُ أَنْ يُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَتْ: كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي وَلَأُوثِرَنَّ بِهِ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي , فَلَمَّا أَقْبَلَ قِيلَ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَدْ جَاءَ، قَالَ: ارْفَعُونِي فَأَسْنَدَهُ رَجُلٌ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا لَدَيْكَ، قَالَ: الَّذِي تُحِبُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَذِنَتْ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا كَانَ مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ فَإِذَا أَنَا قَضَيْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمْ فَقُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَأَدْخِلُونِي وَإِنْ رَدَّتْنِي رُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ , وَجَاءَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ حَفْصَةُ وَالنِّسَاءُ تَسِيرُ مَعَهَا فَلَمَّا رَأَيْنَاهَا قُمْنَا , فَوَلَجَتْ عَلَيْهِ فَبَكَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً وَاسْتَأْذَنَ الرِّجَالُ فَوَلَجَتْ دَاخِلًا لَهُمْ فَسَمِعْنَا بُكَاءَهَا مِنَ الدَّاخِلِ، فَقَالُوا: أَوْصِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اسْتَخْلِفْ، قَالَ: مَا أَجِدُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ أَوِ الرَّهْطِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَسَمَّى عَلِيًّا , وَعُثْمَانَ , وَالزُّبَيْرَ , وَطَلْحَةَ , وَسَعْدًا , وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ: يَشْهَدُكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَلَيْسَ لَهُ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ كَهَيْئَةِ التَّعْزِيَةِ لَهُ فَإِنْ أَصَابَتِ الْإِمْرَةُ سَعْدًا فَهُوَ ذَاكَ وَإِلَّا فَلْيَسْتَعِنْ بِهِ أَيُّكُمْ مَا أُمِّرَ فَإِنِّي لَمْ أَعْزِلْهُ عَنْ عَجْزٍ وَلَا خِيَانَةٍ، وَقَالَ:" أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَيَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ , وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَأَنْ يُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِأَهْلِ الْأَمْصَارِ خَيْرًا فَإِنَّهُمْ رِدْءُ الْإِسْلَامِ وَجُبَاةُ الْمَالِ وَغَيْظُ الْعَدُوِّ , وَأَنْ لَا يُؤْخَذَ مِنْهُمْ إِلَّا فَضْلُهُمْ عَنْ رِضَاهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَعْرَابِ خَيْرًا فَإِنَّهُمْ أَصْلُ الْعَرَبِ وَمَادَّةُ الْإِسْلَامِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْ حَوَاشِي أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدَّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ , وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَلَا يُكَلَّفُوا إِلَّا طَاقَتَهُمْ" , فَلَمَّا قُبِضَ خَرَجْنَا بِهِ فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي فَسَلَّمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَتْ: أَدْخِلُوهُ فَأُدْخِلَ فَوُضِعَ هُنَالِكَ مَعَ صَاحِبَيْهِ فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ دَفْنِهِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ الرَّهْطُ، فَقَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ اجْعَلُوا أَمْرَكُمْ إِلَى ثَلَاثَةٍ مِنْكُمْ، فَقَالَ: الزُّبَيْرُ قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالَ: طَلْحَةُ قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عُثْمَانَ، وَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَيُّكُمَا تَبَرَّأَ مِنْ هَذَا الْأَمْرِ فَنَجْعَلُهُ إِلَيْهِ وَاللَّهُ عَلَيْهِ وَالْإِسْلَامُ لَيَنْظُرَنَّ أَفْضَلَهُمْ فِي نَفْسِهِ فَأُسْكِتَ الشَّيْخَانِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَفَتَجْعَلُونَهُ إِلَيَّ وَاللَّهُ عَلَيَّ أَنْ لَا آلُ عَنْ أَفْضَلِكُمْ، قَالَا: نَعَمْ فَأَخَذَ بِيَدِ أَحَدِهِمَا، فَقَالَ: لَكَ قَرَابَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَدَمُ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ فَاللَّهُ عَلَيْكَ لَئِنْ أَمَّرْتُكَ لَتَعْدِلَنَّ وَلَئِنْ أَمَّرْتُ عُثْمَانَ لَتَسْمَعَنَّ وَلَتُطِيعَنَّ ثُمَّ خَلَا بِالْآخَرِ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ فَلَمَّا أَخَذَ الْمِيثَاقَ، قَالَ: ارْفَعْ يَدَكَ يَا عُثْمَانُ فَبَايَعَهُ فَبَايَعَ لَهُ عَلِيٌّ وَوَلَجَ أَهْلُ الدَّارِ فَبَايَعُوهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرما رہے تھے کہ (عراق کی اراضی کے لیے، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا) تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگا دیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بار ڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوں گا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی۔ راوی عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے۔ عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے، میں (فجر کی نماز کے انتظار میں) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو اور جب دیکھتے کہ صفوں میں کوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے (مصلی پر) بڑھتے اور تکبیر کہتے۔ آپ (فجر کی نماز کی) پہلی رکعت میں عموماً سورۃ یوسف یا سورۃ النحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہو جاتے۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا، آپ فرما رہے ہیں کہ مجھے قتل کر دیا یا کتے نے کاٹ لیا۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دو دھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کر دیا جن میں سات حضرات نے شہادت پائی۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب (حطان نامی) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی۔ اس بدبخت کو جب یقین ہو گیا کہ اب پکڑ لیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلا کاٹ لیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھا دیا (عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے (پیچھے کی صفوں میں) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا، البتہ چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی قرآت (نماز میں) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہتے رہے۔ آخر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھا اور آ کر فرمایا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے غلام (ابولولو) نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا، وہی جو کاریگر ہے؟ جواب دیا کہ جی ہاں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی (جس کا اس نے یہ بدلا دیا) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ تم اور تمہارے والد (عباس رضی اللہ عنہ) اس کے بہت ہی خواہشمند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کر گزریں۔ مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم (مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو) قتل کر ڈالیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ انتہائی غلط فکر ہے، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ (اچھے ہو جائیں گے) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا۔ پھر دودھ لایا گیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا۔ اب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے۔ پھر ہم اندر آ گئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگایا امیرالمؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی۔ ابتداء میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی، پھر شہادت پائی، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہو جاتا، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب۔ جب وہ نوجوان جانے لگا تو اس کا تہبند (ازار) لٹک رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلا لاؤ (جب وہ آئے تو) آپ نے فرمایا: میرے بھتیجے! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھائے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے۔ اے عبداللہ بن عمر! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی (86) ہزار نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہو سکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہو سکے تو قریش سے کہنا، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کر دینا۔ اچھا اب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ امیرالمؤمنین (میرے نام کے ساتھ) نہ کہنا، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا ہوں، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رو رہی ہیں۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کر رکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آ گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ۔ ایک صاحب نے سہارا دے کر آپ کو اٹھایا۔ آپ نے دریافت کیا کیا خبر لائے؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیرالمؤمنین! عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمدللہ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن جب میری وفات ہو چکے اور مجھے اٹھا کر (دفن کے لیے) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندرونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! خلافت کے لیے کوئی وصیت کر دیجئیے، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حد تک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ جیسے آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایا ہو۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہو سکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے۔ کیونکہ میں نے ان کو (کوفہ کی گورنری سے) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا: میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان (مدینہ منورہ) میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے سے) مقیم ہیں۔ (خلیفہ کو چاہیے) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کر دیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور (اسلام کے) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیا جائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیا جائے اور انہیں کے محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی (جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے، جب عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو ہم وہاں سے ان کو لے کر (عائشہ رضی اللہ عنہا) کے حجرہ کی طرف آئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ہے۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے، پھر جب لوگ دفن سے فارغ ہو چکے تو وہ جماعت (جن کے نام عمر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے بتائے تھے) جمع ہوئی عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: تمہیں اپنا معاملہ اپنے ہی میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دینا چاہیے اس پر زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرتا ہوں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سپرد کیا۔ اس کے بعد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے (عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے) کہا کہ آپ دونوں حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی برات ظاہر کرے ہم اسی کو خلافت دیں گے اور اللہ اس کا نگراں و نگہبان ہو گا اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہو گی۔ ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے، اس پر یہ دونوں حضرات خاموش ہو گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ حضرات اس انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم کہ میں آپ حضرات میں سے اسی کو منتخب کروں گا جو سب میں افضل ہو گا۔ ان دونوں حضرات نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ آپ کی قرابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ابتداء میں اسلام لانے کا شرف بھی۔ جیسا کہ آپ کو خود ہی معلوم ہے، پس اللہ آپ کا نگران ہے کہ اگر میں آپ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ عدل و انصاف سے کام لیں گے اور اگر عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ ان کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے؟ اس کے بعد دوسرے صاحب کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی یہی کہا اور جب ان سے وعدہ لے لیا تو فرمایا: اے عثمان! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ چنانچہ انہوں نے ان سے بیعت کی اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے بیعت کی، پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔
Narrated `Amr bin Maimun: I saw `Umar bin Al-Khattab a few days before he was stabbed in Medina. He was standing with Hudhaifa bin Al-Yaman and `Uthman bin Hunaif to whom he said, "What have you done? Do you think that you have imposed more taxation on the land (of As-Swad i.e. 'Iraq) than it can bear?" They replied, "We have imposed on it what it can bear because of its great yield." `Umar again said, "Check whether you have imposed on the land what it can not bear." They said, "No, (we haven't)." `Umar added, "If Allah should keep me alive I will let the widows of Iraq need no men to support them after me." But only four days had elapsed when he was stabbed (to death ). The day he was stabbed, I was standing and there was nobody between me and him (i.e. `Umar) except `Abdullah bin `Abbas. Whenever `Umar passed between the two rows, he would say, "Stand in straight lines." When he saw no defect (in the rows), he would go forward and start the prayer with Takbir. He would recite Surat Yusuf or An-Nahl or the like in the first rak`a so that the people may have the time to Join the prayer. As soon as he said Takbir, I heard him saying, "The dog has killed or eaten me," at the time he (i.e. the murderer) stabbed him. A non-Arab infidel proceeded on carrying a double-edged knife and stabbing all the persons he passed by on the right and left (till) he stabbed thirteen persons out of whom seven died. When one of the Muslims saw that, he threw a cloak on him. Realizing that he had been captured, the non-Arab infidel killed himself, `Umar held the hand of `Abdur-Rahman bin `Auf and let him lead the prayer. Those who were standing by the side of `Umar saw what I saw, but the people who were in the other parts of the Mosque did not see anything, but they lost the voice of `Umar and they were saying, "Subhan Allah! Subhan Allah! (i.e. Glorified be Allah)." `Abdur-Rahman bin `Auf led the people a short prayer. When they finished the prayer, `Umar said, "O Ibn `Abbas! Find out who attacked me." Ibn `Abbas kept on looking here and there for a short time and came to say. "The slave of Al Mughira." On that `Umar said, "The craftsman?" Ibn `Abbas said, "Yes." `Umar said, "May Allah curse him. I did not treat him unjustly. All the Praises are for Allah Who has not caused me to die at the hand of a man who claims himself to be a Muslim. No doubt, you and your father (Abbas) used to love to have more non-Arab infidels in Medina." Al-Abbas had the greatest number of slaves. Ibn `Abbas said to `Umar. "If you wish, we will do." He meant, "If you wish we will kill them." `Umar said, "You are mistaken (for you can't kill them) after they have spoken your language, prayed towards your Qibla, and performed Hajj like yours." Then `Umar was carried to his house, and we went along with him, and the people were as if they had never suffered a calamity before. Some said, "Do not worry (he will be Alright soon)." Some said, "We are afraid (that he will die)." Then an infusion of dates was brought to him and he drank it but it came out (of the wound) of his belly. Then milk was brought to him and he drank it, and it also came out of his belly. The people realized that he would die. We went to him, and the people came, praising him. A young man came saying, "O chief of the believers! Receive the glad tidings from Allah to you due to your company with Allah's Apostle and your superiority in Islam which you know. Then you became the ruler (i.e. Caliph) and you ruled with justice and finally you have been martyred." `Umar said, "I wish that all these privileges will counterbalance (my shortcomings) so that I will neither lose nor gain anything." When the young man turned back to leave, his clothes seemed to be touching the ground. `Umar said, "Call the young man back to me." (When he came back) `Umar said, "O son of my brother! Lift your clothes, for this will keep your clothes clean and save you from the Punishment of your Lord." `Umar further said, "O `Abdullah bin `Umar! See how much I am in debt to others." When the debt was checked, it amounted to approximately eighty-six thousand. `Umar said, "If the property of `Umar's family covers the debt, then pay the debt thereof; otherwise request it from Bani `Adi bin Ka`b, and if that too is not sufficient, ask for it from Quraish tribe, and do not ask for it from any one else, and pay this debt on my behalf." `Umar then said (to `Abdullah), "Go to `Aisha (the mother of the believers) and say: "`Umar is paying his salutation to you. But don't say: 'The chief of the believers,' because today I am not the chief of the believers. And say: "`Umar bin Al-Khattab asks the permission to be buried with his two companions (i.e. the Prophet, and Abu Bakr)." `Abdullah greeted `Aisha and asked for the permission for entering, and then entered to her and found her sitting and weeping. He said to her, "`Umar bin Al-Khattab is paying his salutations to you, and asks the permission to be buried with his two companions." She said, "I had the idea of having this place for myself, but today I prefer `Umar to myself." When he returned it was said (to `Umar), "`Abdullah bin `Umar has come." `Umar said, "Make me sit up." Somebody supported him against his body and `Umar asked (`Abdullah), "What news do you have?" He said, "O chief of the believers! It is as you wish. She has given the permission." `Umar said, "Praise be to Allah, there was nothing more important to me than this. So when I die, take me, and greet `Aisha and say: "`Umar bin Al-Khattab asks the permission (to be buried with the Prophet ), and if she gives the permission, bury me there, and if she refuses, then take me to the grave-yard of the Muslims." Then Hafsa (the mother of the believers) came with many other women walking with her. When we saw her, we went away. She went in (to `Umar) and wept there for sometime. When the men asked for permission to enter, she went into another place, and we heard her weeping inside. The people said (to `Umar), "O chief of the believers! Appoint a successor." `Umar said, "I do not find anyone more suitable for the job than the following persons or group whom Allah's Apostle had been pleased with before he died." Then `Umar mentioned `Ali, `Uthman, AzZubair, Talha, Sa`d and `Abdur-Rahman (bin `Auf) and said, "Abdullah bin `Umar will be a witness to you, but he will have no share in the rule. His being a witness will compensate him for not sharing the right of ruling. If Sa`d becomes the ruler, it will be alright: otherwise, whoever becomes the ruler should seek his help, as I have not dismissed him because of disability or dishonesty." `Umar added, "I recommend that my successor takes care of the early emigrants; to know their rights and protect their honor and sacred things. I also recommend that he be kind to the Ansar who had lived in Medina before the emigrants and Belief had entered their hearts before them. I recommend that the (ruler) should accept the good of the righteous among them and excuse their wrong-doers, and I recommend that he should do good to all the people of the towns (Al-Ansar), as they are the protectors of Islam and the source of wealth and the source of annoyance to the enemy. I also recommend that nothing be taken from them except from their surplus with their consent. I also recommend that he do good to the 'Arab bedouin, as they are the origin of the 'Arabs and the material of Islam. He should take from what is inferior, amongst their properties and distribute that to the poor amongst them. I also recommend him concerning Allah's and His Apostle's protectees (i.e. Dhimmis) to fulfill their contracts and to fight for them and not to overburden them with what is beyond their ability." So when `Umar expired, we carried him out and set out walking. `Abdullah bin `Umar greeted (`Aisha) and said, "`Umar bin Al-Khattab asks for the permission." `Aisha said, "Bring him in." He was brought in and buried beside his two companions. When he was buried, the group (recommended by `Umar) held a meeting. Then `Abdur-Rahman said, " Reduce the candidates for rulership to three of you." Az-Zubair said, "I give up my right to `Ali." Talha said, "I give up my right to `Uthman," Sa`d, 'I give up my right to `Abdur-Rahman bin `Auf." `Abdur-Rahman then said (to `Uthman and `Ali), "Now which of you is willing to give up his right of candidacy to that he may choose the better of the (remaining) two, bearing in mind that Allah and Islam will be his witnesses." So both the sheiks (i.e. `Uthman and `Ali) kept silent. `Abdur-Rahman said, "Will you both leave this matter to me, and I take Allah as my Witness that I will not choose but the better of you?" They said, "Yes." So `Abdur-Rahman took the hand of one of them (i.e. `Ali) and said, "You are related to Allah's Apostle and one of the earliest Muslims as you know well. So I ask you by Allah to promise that if I select you as a ruler you will do justice, and if I select `Uthman as a ruler you will listen to him and obey him." Then he took the other (i.e. `Uthman) aside and said the same to him. When `Abdur-Rahman secured (their agreement to) this covenant, he said, "O `Uthman! Raise your hand." So he (i.e. `Abdur-Rahman) gave him (i.e. `Uthman) the solemn pledge, and then `Ali gave him the pledge of allegiance and then all the (Medina) people gave him the pledge of allegiance.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 50
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش، عن حصين، عن عمرو بن ميمون، قال: قال عمر رضي الله عنه: اوصي الخليفة بالمهاجرين الاولين ان يعرف لهم حقهم، واوصي الخليفة بالانصار الذين تبوءوا الدار والإيمان من قبل ان يهاجر النبي صلى الله عليه وسلم، ان يقبل من محسنهم، ويعفو عن مسيئهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ، وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ".
ہم سے احمد بن یونس بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (زخمی ہونے کے بعد انتقال سے پہلے) فرمایا تھا میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کا حق پہچانے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو دارالسلام اور ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی سے قرار پکڑے ہوئے ہیں یہ کہ ان میں جو نیکوکار ہیں ان کی عزت کرے اور ان کے غلط کاروں سے درگزر کرے۔
Narrated `Umar: I recommend that my successor should take care of and secure the rights of the early emigrants; and I also advise my successor to be kind to the Ansar who had homes (in Medina) and had adopted the Faith, before the Prophet migrated to them, and to accept the good from their good ones and excuse their wrong doers.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 410
(موقوف) حدثنا عبد الله بن محمد بن اسماء، حدثنا جويرية، عن مالك، عن الزهري، ان حميد بن عبد الرحمن اخبره، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان الرهط الذين ولاهم عمر اجتمعوا، فتشاوروا، فقال لهم عبد الرحمن: لست بالذي انافسكم على هذا الامر، ولكنكم إن شئتم اخترت لكم منكم، فجعلوا ذلك إلى عبد الرحمن، فلما ولوا عبد الرحمن امرهم، فمال الناس على عبد الرحمن حتى ما ارى احدا من الناس يتبع اولئك الرهط ولا يطا عقبه، ومال الناس على عبد الرحمن يشاورونه تلك الليالي حتى إذا كانت الليلة التي اصبحنا منها فبايعنا عثمان، قال المسور: طرقني عبد الرحمن بعد هجع من الليل، فضرب الباب حتى استيقظت، فقال: اراك نائما فوالله ما اكتحلت هذه الليلة بكبير نوم، انطلق فادع الزبير، وسعدا، فدعوتهما له فشاورهما ثم دعاني، فقال: ادع لي عليا، فدعوته، فناجاه حتى ابهار الليل، ثم قام علي من عنده وهو على طمع، وقد كان عبد الرحمن يخشى من علي شيئا، ثم قال: ادع لي عثمان، فدعوته، فناجاه حتى فرق بينهما المؤذن بالصبح، فلما صلى للناس الصبح، واجتمع اولئك الرهط عند المنبر، فارسل إلى من كان حاضرا من المهاجرين والانصار وارسل إلى امراء الاجناد، وكانوا وافوا تلك الحجة مع عمر، فلما اجتمعوا، تشهد عبد الرحمن، ثم قال:" اما بعد يا علي، إني قد نظرت في امر الناس فلم ارهم يعدلون بعثمان فلا تجعلن على نفسك سبيلا، فقال: ابايعك على سنة الله ورسوله والخليفتين من بعده"، فبايعه عبد الرحمن وبايعه الناس المهاجرون، والانصار وامراء الاجناد، والمسلمون.(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الرَّهْطَ الَّذِينَ وَلَّاهُمْ عُمَرُ اجْتَمَعُوا، فَتَشَاوَرُوا، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: لَسْتُ بِالَّذِي أُنَافِسُكُمْ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ، وَلَكِنَّكُمْ إِنْ شِئْتُمُ اخْتَرْتُ لَكُمْ مِنْكُمْ، فَجَعَلُوا ذَلِكَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَلَمَّا وَلَّوْا عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَمْرَهُمْ، فَمَالَ النَّاسُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَتَّى مَا أَرَى أَحَدًا مِنَ النَّاسِ يَتْبَعُ أُولَئِكَ الرَّهْطَ وَلَا يَطَأُ عَقِبَهُ، وَمَالَ النَّاسُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُشَاوِرُونَهُ تِلْكَ اللَّيَالِي حَتَّى إِذَا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَصْبَحْنَا مِنْهَا فَبَايَعْنَا عُثْمَانَ، قَالَ الْمِسْوَرُ: طَرَقَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَعْدَ هَجْعٍ مِنَ اللَّيْلِ، فَضَرَبَ الْبَابَ حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ، فَقَالَ: أَرَاكَ نَائِمًا فَوَاللَّهِ مَا اكْتَحَلْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِكَبِيرِ نَوْمٍ، انْطَلِقْ فَادْعُ الزُّبَيْرَ، وَسَعْدًا، فَدَعَوْتُهُمَا لَهُ فَشَاوَرَهُمَا ثُمَّ دَعَانِي، فَقَالَ: ادْعُ لِي عَلِيًّا، فَدَعَوْتُهُ، فَنَاجَاهُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ مِنْ عِنْدِهِ وَهُوَ عَلَى طَمَعٍ، وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَخْشَى مِنْ عَلِيٍّ شَيْئًا، ثُمّ قَالَ: ادْعُ لِي عُثْمَانَ، فَدَعَوْتُهُ، فَنَاجَاهُ حَتَّى فَرَّقَ بَيْنَهُمَا الْمُؤَذِّنُ بِالصُّبْحِ، فَلَمَّا صَلَّى لِلنَّاسِ الصُّبْحَ، وَاجْتَمَعَ أُولَئِكَ الرَّهْطُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، فَأَرْسَلَ إِلَى مَنْ كَانَ حَاضِرًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَأَرْسل إِلَى أُمَرَاءِ الْأَجْنَادِ، وَكَانُوا وَافَوْا تِلْكَ الْحَجَّةَ مَعَ عُمَرَ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا، تَشَهَّدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثُمّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ يَا عَلِيُّ، إِنِّي قَدْ نَظَرْتُ فِي أَمْرِ النَّاسِ فَلَمْ أَرَهُمْ يَعْدِلُونَ بِعُثْمَانَ فَلَا تَجْعَلَنَّ عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا، فَقَالَ: أُبَايِعُكَ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْخَلِيفَتَيْنِ مِنْ بَعْدِهِ"، فَبَايَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَبَايَعَهُ النَّاسُ الْمُهَاجِرُونَ، وَالْأَنْصَارُ وَأُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ، وَالْمُسْلِمُونَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں مسور بن مخرمہ نے خبر دی کہ وہ چھ آدمی جن کو عمر رضی اللہ عنہ خلافت کے لیے نامزد کر گئے تھے (یعنی علی ‘ عثمان ‘ زبیر ‘ طلحہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم کہ ان میں سے کسی ایک کو اتفاق سے خلیفہ بنا لیا جائے) یہ سب جمع ہوئے اور مشورہ کیا۔ ان سے عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا خلیفہ ہونے کے لیے میں آپ لوگوں سے کوئی مقابلہ نہیں کروں گا۔ البتہ اگر آپ لوگ چاہیں تو آپ لوگوں کے لیے کوئی خلیفہ آپ ہی میں سے میں چن دوں۔ چنانچہ سب نے مل کر اس کا اختیار عبدالرحمٰن بن عوف کو دے دیا۔ جب ان لوگوں نے انتخاب کی ذمہ داری عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تو سب لوگ ان کی طرف جھک گئے۔ جتنے لوگ بھی اس جماعت کے پیچھے چل رہے تھے، ان میں اب میں نے کسی کو بھی ایسا نہ دیکھا جو عبدالرحمٰن کے پیچھے نہ چل رہا ہو۔ سب لوگ ان ہی کی طرف مائل ہو گئے اور ان دنوں میں ان سے مشورہ کرتے رہے جب وہ رات آئی جس کی صبح کو ہم نے عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔ مسور رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ رات گئے میرے یہاں آئے اور دروازہ کھٹکٹھایا یہاں تک کہ میں بیدار ہو گیا۔ انہوں نے کہا میرا خیال ہے آپ سو رہے تھے، اللہ کی قسم میں ان راتوں میں بہت کم سو سکا ہوں۔ جائیے! زبیر اور سعد کو بلائیے۔ میں ان دونوں بزرگوں کو بلا لایا اور انہوں نے ان سے مشورہ کیا، پھر مجھے بلایا اور کہا کہ میرے لیے علی رضی اللہ عنہ کو بھی بلا دیجئیے۔ میں نے انہیں بھی بلایا اور انہوں نے ان سے بھی سر گوشی کی۔ یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ پھر علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنے ہی لیے امید تھی۔ عبدالرحمٰن کے دل میں بھی ان کی طرف سے یہی ڈر تھا، پھر انہوں نے کہا کہ میرے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی بلا لائیے۔ میں نے انہیں بھی بلا لایا اور انہوں نے ان سے بھی سرگوشی کی۔ آخر صبح کے مؤذن نے ان کے درمیان جدائی کی۔ جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھ لی اور یہ سب لوگ منبر کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے موجود مہاجرین، انصار اور لشکروں کے قائدین کو بلایا۔ ان لوگوں نے اس سال حج عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا پھر کہا امابعد! اے علی! میں نے لوگوں کے خیالات معلوم کئے اور میں نے دیکھا کہ وہ عثمان کو مقدم سمجھتے ہیں اور ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے، اس لیے آپ اپنے دل میں کوئی میل پیدا نہ کریں۔ پھر کہا میں آپ (عثمان رضی اللہ عنہ) سے اللہ کے دین اور اس کے رسول کی سنت اور آپ کے دو خلفاء کے طریق کے مطابق بیعت کرتا ہوں۔ چنانچہ پہلے ان سے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیعت کی، پھر سب لوگوں نے اور مہاجرین، انصار اور فوجیوں کے سرداروں اور تمام مسلمانوں نے بیعت کی۔
Narrated Al-Miswar bin Makhrama: The group of people whom `Umar had selected as candidates for the Caliphate gathered and consulted each other. `Abdur-Rahman said to them, "I am not going to compete with you in this matter, but if you wish, I would select for you a caliph from among you." So all of them agreed to let `Abdur-Rahman decide the case. So when the candidates placed the case in the hands of `Abdur-Rahman, the people went towards him and nobody followed the rest of the group nor obeyed any after him. So the people followed `Abdur-Rahman and consulted him all those nights till there came the night we gave the oath of allegiance to `Uthman. Al-Miswar (bin Makhrama) added: `Abdur-Rahman called on me after a portion of the night had passed and knocked on my door till I got up, and he said to me, "I see you have been sleeping! By Allah, during the last three nights I have not slept enough. Go and call Az-Zubair and Sa`d.' So I called them for him and he consulted them and then called me saying, 'Call `Ali for me." I called `Ali and he held a private talk with him till very late at night, and then 'Al, got up to leave having had much hope (to be chosen as a Caliph) but `Abdur-Rahman was afraid of something concerning `Ali. `Abdur-Rahman then said to me, "Call `Uthman for me." I called him and he kept on speaking to him privately till the Mu'adh-dhin put an end to their talk by announcing the Adhan for the Fajr prayer. When the people finished their morning prayer and that (six men) group gathered near the pulpit, `Abdur-Rahman sent for all the Muhajirin (emigrants) and the Ansar present there and sent for the army chief who had performed the Hajj with `Umar that year. When all of them had gathered, `Abdur- Rahman said, "None has the right to be worshipped but Allah," and added, "Now then, O `Ali, I have looked at the people's tendencies and noticed that they do not consider anybody equal to `Uthman, so you should not incur blame (by disagreeing)." Then `Abdur-Rahman said (to `Uthman), "I gave the oath of allegiance to you on condition that you will follow Allah's Laws and the traditions of Allah's Apostle and the traditions of the two Caliphs after him." So `Abdur-Rahman gave the oath of allegiance to him, and so did the people including the Muhajirin (emigrants) and the Ansar and the chiefs of the army staff and all the Muslims.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 314