(مرفوع) حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا سفيان بن عيينة، اخبرنا إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك رضي الله عنه , يقول:" اشتكى ابن لابي طلحة , قال: فمات وابو طلحة خارج، فلما رات امراته انه قد مات هيات شيئا ونحته في جانب البيت، فلما جاء ابو طلحة , قال: كيف الغلام؟ قالت: قد هدات نفسه , وارجو ان يكون قد استراح، وظن ابو طلحة انها صادقة , قال: فبات، فلما اصبح اغتسل فلما اراد ان يخرج اعلمته انه قد مات، فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم اخبر النبي صلى الله عليه وسلم بما كان منهما , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعل الله ان يبارك لكما في ليلتكما"، قال سفيان: فقال رجل من الانصار: فرايت لهما تسعة اولاد كلهم قد قرا القرآن.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ:" اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ , قَالَ: فَمَاتَ وَأَبُو طَلْحَةَ خَارِجٌ، فَلَمَّا رَأَتِ امْرَأَتُهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ هَيَّأَتْ شَيْئًا وَنَحَّتْهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ، فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ , قَالَ: كَيْفَ الْغُلَامُ؟ قَالَتْ: قَدْ هَدَأَتْ نَفْسُهُ , وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدِ اسْتَرَاحَ، وَظَنَّ أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهَا صَادِقَةٌ , قَالَ: فَبَاتَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ اغْتَسَلَ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَعْلَمَتْهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا كَانَ مِنْهُمَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُبَارِكَ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا"، قَالَ سُفْيَانُ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: فَرَأَيْتُ لَهُمَا تِسْعَةَ أَوْلَادٍ كُلُّهُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ.
ہم سے بشر بن حکم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بتلایا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار ہو گیا انہوں نے کہا کہ اس کا انتقال بھی ہو گیا۔ اس وقت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہو گیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کر رہا ہو گا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ (اب بچہ اچھا ہے) پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہو چکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم رضی اللہ عنہا کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی انہیں بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔
Narrated Anas bin Malik: One of the sons of Abu Talha became sick and died and Abu Talha at that time was not at home. When his wife saw that he was dead, she prepared him (washed and shrouded him) and placed him somewhere in the house. When Abu Talha came, he asked, "How is the boy?" She said, "The child is quiet and I hope he is in peace." Abu Talha thought that she had spoken the truth. Abu Talha passed the night and in the morning took a bath and when he intended to go out, she told him that his son had died, Abu Talha offered the (morning) prayer with the Prophet and informed the Prophet of what happened to them. Allah's Apostle said, "May Allah bless you concerning your night. (That is, may Allah bless you with good offspring)." Sufyan said, "One of the Ansar said, 'They (i.e. Abu Talha and his wife) had nine sons and all of them became reciters of the Qur'an (by heart).' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 388
(مرفوع) حدثنا مطر بن الفضل، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا عبد الله بن عون، عن انس بن سيرين، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" كان ابن لابي طلحة يشتكي، فخرج ابو طلحة فقبض الصبي، فلما رجع ابو طلحة، قال: ما فعل ابني؟ قالت ام سليم: هو اسكن ما كان، فقربت إليه العشاء، فتعشى ثم اصاب منها، فلما فرغ، قالت: واروا الصبي، فلما اصبح ابو طلحة اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال: اعرستم الليلة؟ قال: نعم، قال: اللهم بارك لهما، فولدت غلاما، قال لي ابو طلحة: احفظه حتى تاتي به النبي صلى الله عليه وسلم، فاتى به النبي صلى الله عليه وسلم وارسلت معه بتمرات، فاخذه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: امعه شيء؟ قالوا: نعم، تمرات، فاخذها النبي صلى الله عليه وسلم فمضغها ثم اخذ من فيه فجعلها في في الصبي وحنكه به وسماه عبد الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ يَشْتَكِي، فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُبِضَ الصَّبِيُّ، فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو طَلْحَةَ، قَالَ: مَا فَعَلَ ابْنِي؟ قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: هُوَ أَسْكَنُ مَا كَانَ، فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ الْعَشَاءَ، فَتَعَشَّى ثُمَّ أَصَابَ مِنْهَا، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَتْ: وَارُوا الصَّبِيَّ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَبُو طَلْحَةَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: أَعْرَسْتُمُ اللَّيْلَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمَا، فَوَلَدَتْ غُلَامًا، قَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ: احْفَظْهُ حَتَّى تَأْتِيَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَرْسَلَتْ مَعَهُ بِتَمَرَاتٍ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَمَعَهُ شَيْءٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، تَمَرَاتٌ، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَضَغَهَا ثُمَّ أَخَذَ مِنْ فِيهِ فَجَعَلَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ وَحَنَّكَهُ بِهِ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ".
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، انہیں عبداللہ بن عون نے خبر دی، انہیں انس بن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار تھا۔ ابوطلحہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچہ کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ (تھکے ماندے) واپس آئے تو پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ ان کی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ سکون کے ساتھ ہے پھر بیوی نے ان کے سامنے کھانا رکھا اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کی پھر جب فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ بچہ کو دفن کر دو۔ صبح ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے رات ہمبستری بھی کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما۔“ پھر ان کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو مجھ سے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے حفاظت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ۔ چنانچہ بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بچہ کے ساتھ کچھ کھجوریں بھیجیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کو لیا اور دریافت فرمایا کہ اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں کھجوریں ہیں۔ آپ نے اسے لے کر چبایا اور پھر اسے اپنے منہ میں نکال کر بچہ کے منہ میں رکھ دیا اور اس سے بچہ کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Talha had a child who was sick. Once, while Abu Talha was out, the child died. When Abu Talha returned home, he asked, "How does my son fare?" Um Salaim (his wife) replied, "He is quieter than he has ever been." Then she brought supper for him and he took his supper and slept with her. When he had finished, she said (to him), "Bury the child (as he's dead)." Next morning Abu Talha came to Allah's Apostle and told him about that. The Prophet said (to him), "Did you sleep with your wife last night?" Abu Talha said, "Yes". The Prophet said, "O Allah! Bestow your blessing on them as regards that night of theirs." Um Sulaim gave birth to a boy. Abu Talha told me to take care of the child till it was taken to the Prophet. Then Abu Talha took the child to the Prophet and Um Sulaim sent some dates along with the child. The Prophet took the child (on his lap) and asked if there was something with him. The people replied, "Yes, a few dates." The Prophet took a date, chewed it, took some of it out of his mouth, put it into the child's mouth and did Tahnik for him with that, and named him 'Abdullah.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 66, Number 379