ابوعبداللہ عبدالرحمٰن بن القاسم بن خالد بن جناده العتقی المصری الفقیہ رحمہ اللہ
پیدائش:
132ھ یا 128ھ والله اعلم
اساتذہ:
◈ امام مالک بن انس ◈ امام سفیان بن عیینہ المکی ◈ قاری نافع بن عبدالرحمٰن بن ابی نعيم المدنی وغیرہم
توثیق:
◈ امام بخاری نے بذریعہ سعید بن تلید آپ سے روایت بیان کی ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 4694] ◈ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: «(ثقة) رجل صدق»”ثقہ سچے آدمی ہیں۔“[سوالات ابن الجنيد: 664] ◈ امام ابوزرعہ الرازی نے فرمایا: «مصري ثقة، رجل صالح ...»”مصری ثقہ (اور) نیک آدمی ہیں .... الخ“ پھر اس کے بعد ابوزرعہ نے بتایاکہ لوگ عبدالرحمٰن بن القاسم کے (امام) مالک سے مسائل میں کلام کرتے ہیں۔ [الجرح و التعديل 279/5] ◈ حافظ ابن حبان نے انہیں ثقہ راویوں میں ذکر کیا ہے۔ [الثقات لابن حبان 374/8] ◈ حافظ ذہبی نے کہا: «صدوق»[الكاشف 120/2، ت 3333] ◈ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: «الفقيه صاحب مالك، ثقة»[تقريب التهذيب: 3980] ◈ ابوالقاسم حمزہ بن محمد الكنانی رحمہ اللہ (متوفی 357ھ) نے فرمایا: «إذا اختلف الناس عن مالك فالقول ما قال ابن القاسم»”جب لوگوں کا (امام) مالک سے (روایت میں) اختلاف ہو تو ابن القاسم کا قول لینا چاہئے۔“[مقدمة الملخص، ص: 4، وسنده صحيح] ◈ ابوسعد عبدالکریم بن محمد السمعانی نے کہا: «من كبراء المصريين و فقهائهم»”مصر کے کبار علماء اور فقہاء میں سے ہیں۔“[الانساب 152/4] ◈ حافظ ابن عبدالبر نے کہا: «وكان فقيها قد غلب عليه الرأي و كان رجلا صالحا مقلا صابرا و روايته الموطأ عن مالك رواية صحيحة، قليلة الخطأ و كان فيما رواه عن مالك من موطئه ثقة حسن الضبط متقنا»”آپ فقیہ تھے جن پر رائے کا غلبہ تھا، آپ نیک آدمی اور تھوڑے پر صبر کرنے والے تھے، آپ کی موطأ مالک والی روایت صحیح ہے جس میں غلطیاں تھوڑی ہیں، آپ موطأ مالک کی روایت میں تقہ متقن (اور) اچھے طریقے سے یاد رکھنے والے تھے۔“[الانتقاء، ص: 50] ◈ حافظ ابویعلی الخلیلی القزوینی (متوفی 446ھ) نے کہا: «ممن يحتج بحديثه، روى الموطأ عن مالك .. و كان يحسن الرواية و روي عن مالك من مسائل الفقه ما لا يوجد عند غيره من أصحاب مالك»”ان کی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے، انھوں نے (امام) مالک سے موطأ روایت کی۔۔۔ آپ اچھی روایت کرتے تھے اور آپ نے مالک سے ایسے مسائلِ فقہ بیان کئے ہیں جو ان کے دوسرے شاگردوں کے پاس نہیں ہیں۔“[الارشاد فى معرفة علماء الحديث 406/1]
تلامذه:
◈ ابوالطاہر احمد بن عمرو بن السرح ◈ الحارث بن مسکین ◈ سحنون بن سعيد التنوخی ◈ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم ◈ یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر وغیرہم
وفات:
صفر 191ھ
موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم کے راوی سحنون بن سعید کے مختصر حالات:
نام و نسب:
ابوسعید عبدالسلام بن سعید بن حبيب بن حسان بن ہلال بن بکار بن ربیعۃ التنوخی الحمصی القيروانی المالکی
پیدائش:
160ھ
اساتذہ:
◈ عبداللہ بن وہب المصری ◈ عبدالرحمٰن بن القاسم ◈ اشہب ◈ سفیان بن عیینہ ◈ ولید بن مسلم ◈ وکیع بن الجراح ◈ عبدالرحمٰن بن مهدی وغیرہم
توثیق:
◈ حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کر کے کہا: ”وہ اصحابِ مالک کے فقہاء میں سے ہیں ...“ الخ۔ [الثقات 299/8] ◈ حافظ ذہبی نے کہا: «الإمام العلامة فقيه المغرب»”امام، علامہ (اور) فقیہِ مغرب۔“[سير اعلام النبلاء 63/12] ◈ کہا جاتا ہے کہ ابوالعرب اور الحجوی وغیرہما نے آپ کی توثیق کی ہے۔ دیکھئے: [المدارك 589/1][الفكر السامي 98/2] اور [الديباج المذهب، ص: 264 وغيره ] ◈ سحنون کے بارے میں راجح یہی ہے کہ ”وہ صدوق راوی ہیں۔“ دیکھئے [نورالعینین طبع جديد، ص: 319] اور [القول المتین طبع جديد، ص: 87]
تلامذہ:
◈ محمد بن عبدالسلام بن سعید بن حبيب القيروانی ◈ بقی بن مخلد ◈ عیسیٰ بن مسکین وغیرہم
وفات:
240ھ
موطأ امام مالک روايۃ ابن القاسم کے راوی عیسیٰ بن مسکین کے مختصر حالات:
نام و نسب:
ابومحمد عیسیٰ بن مسکین بن منظور الافريقي
پیدائش:
214ھ
اساتذہ:
◈ سحنون بن سعید ◈ حارث بن مسکین ◈ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم ◈ یونس بن عبدالاعلیٰ الصدفی وغیرہم
توثیق:
◈ حافظ ذہبی نے کہا: «وكان ثقة ورعا عابدا، مجاب الدعوة»”اور وہ ثقہ پرہیزگار، عبادت گزار (اور) مستجاب الدعوات تھے۔“[سير اعلام النبلاء 573/13] ◈ ابن فرحون المالکی نے کہا: «وكان فقيهًا عالمًا فصيحًا ورعًا، مهيبًا وقورًا، ثقةً مأمونًا، صالحًا ذاسمت و خشوع فاضلًا، طويل الصمت، دائم الحمد، رقيق القلب، غزير الدمعة، كثير الاشفاق، متقنًا فى كل العلوم: الحديث والفقه واللغة وأسماء الرجال ....»”آپ فقیہ عالم، فصیح البیان، پرہیزگار، بارعب، باوقار، ثقہ مامون، نیک، شان و شوکت اور خشوع والے، فاضل، لمبی خاموشی والے، ہمیشہ حمد والے، نرم دل، کثرت سے رونے والے (اور) بہت زیادہ ڈرنے والے تھے، آپ ہر علم (مثلاً)حدیث، فقہ، لغت اور اسماء الرجال میں بہت ماہر تھے ...“[الديباج المذهب ص: 280، ت 363]
تلامذہ:
◈ ابومحمد عبداللہ بن ابی ہاشم التجیبی ◈ تمیم بن محمد ◈ احمد بن محمد بن تمیم وغیرہم
وفات:
موطأ امام مالک روايۃ ابن القاسم کے مزید راوۃ:
ابوجعفر احمد بن ابی سلیمان:
① ابوجعفر احمد بن ابی سلیمان داود الصواف رحمہ اللہ ابن فرحون نے کہا: «و كان حافظًا للفقه مقدمًا فيه مع ورع فى دينه ...» آپ دین میں پرہیزگاری کے ساتھ فقہ کے حافظ (اور) اس میں متقدم تھے۔ [الديباج المذهب، ص: 95، ت 34]
جبلہ بن حمود بن عبدالرحمٰن:
② جبلہ بن حمود بن عبدالرحمٰن الصدفی رحمہ اللہ ابن فرحون نے ابوالعرب سے نقل کیا کہ «كان صالحًا ثقة زاهدًا»”وہ صالح ثقہ زاہد تھے۔“[الديباج المذهب، ص: 170، ت194]
محمد بن بسیل:
③ محمد بن بسیل (؟) اگر یہاں تصحیف نہیں تو ان کے حالات نہیں ملے لیکن یاد رہے کہ محمد بن بسیل اس روایت میں مفرد نہیں ہیں بلکہ عیسیٰ بن مسکین اور احمد بن ابی سلیمان الصواف وغیرہما نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔
ابومحمد عبداللہ بن ابی ہاشم:
③ ابومحمد عبداللہ بن ابی ہاشم التجیبی رحمہ اللہ عیسیٰ بن مسکین اور ابوجعفر احمد بن ابی سلیمان سے اس کتاب (الموطأ روايۃ ابن القاسم) کو ابومحمد عبداللہ بن ابی ہاشم التجیبی نے روایت کیا ہے۔ تجیبی کے بارے میں ابن فرحون لکھتے ہیں: «كان شيخًا عالمًا ورعًا .. صحيح الكتاب»”آپ عالم پرہیزگار شیخ تھے ... آپ کی کتاب صحیح ہے۔“[الديباج المذهب، ص: 220، ت 269]
علی بن محمد بن مسرور:
④ علی بن محمد بن مسرور رحمہ اللہ ابوجعفر احمد بن ابی سلیمان، جبلہ بن محمود (حمود) اور محمد بن بسیل سے اسے علی بن محمد بن مسرور العبدی الدباغ نے روایت کیا ہے۔ الدباغ کے بارے میں حافظ ذہی لکھتے ہیں: «وكان إمامًا عابدًا عاقلًا، كثير الحياء»”آپ امام، عابد، عقل مند (اور) بہت حیا دار تھے۔“[تاريخ الاسلام 194/26] آپ 359ھ میں فوت ہوئے۔
ابوالحسن علی بن محمد:
⑤ ابوالحسن علی بن محمد بن خلف المعافری المعروف بابن القابسی رحمہ اللہ ابومحمد التجیبی اور ابن مسرور الدباغ سے اسے ابوالحسن علی بن محمد بن خلف المعافری المعروف بابن القابسی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور حقیقت میں وہی الملخص (اس کتاب) کے مصنف ہیں۔ القابسی کے بارے میں ابن فرحون لکھتے ہیں: «وكان من الصالحين المتقنين، و كان أعمى لا يرى شيئًا و هو مع ذلك من أصح الناس كتبًا وأجودهم ضبطًا وتقييدًا، يضبط كتبه بين يديه ثقات أصحابه»”وہ نیک ثقہ لوگوں میں سے تھے، نابینا تھے، کچھ بھی نہیں دیکھتے تھے اور اس کے باوجود آپ کی کتابیں ضبط و تحریر کے لحاظ سے سب لوگوں سے زیادہ صحیح تھیں، آپ کی کتابیں آپ کے سامنے آپ کے ثقہ ساتھی لکھتے تھے۔“[الديباج المذهب، ص: 296، ت 388] حافظ ذہبی نے کہا: «الإمام الحافظ الفقيه، العلامة عالم المغرب»”امام حافظ فقیہ، علامہ (اور) مغرب (مراکش، افریقہ اور اندلس) کے عالم تھے۔“[سير اعلام النبلاء، 159/17]
خلاصۃ التحقیق:
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس کتاب (موطأ امام مالک: روایۃ عبدالرحمٰن بن القاسم) ملخص القابسی کی سند صحیح ہے۔ والحمد للہ