امام احمد رحمہ اللہ کا نسب نامہ ان کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ نے یوں بیان فرمایا ہے۔ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد بن ادریس بن عبداللہ بن حیان بن عبداللہ بن انس بن عوف بن قاسط بن مازن بن شیبان بن ذہل بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل ذہلی شیبانی، مروزی بغدادی۔
ولادت اور ابتدائی نشو و نما:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ماہ ربیع الثانی 164 ہجری میں پیدا ہوئے، ان کے والد عین جوانی کے عالم میں صرف تیس سال کی عمر میں ہی فوت ہو گئے تھے لہٰذا امام صاحب کی پرورش اور نگہداشت ان کی والدہ کے نازک کندھوں پر اپنی پوری ذمہ داریوں کے ساتھ آن پڑی، خود امام صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے باپ دادا میں سے کسی کو نہیں دیکھا۔
طلب علم:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ابتدائی مکتب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 179 ہجری میں علم حدیث کے حصول میں مشغول ہوئے جبکہ ان کی عمر محض پندرہ سال تھی اور 183 ہجری میں کوفہ کا سفر کیا اور اپنے استاذ ہشیم کی وفات تک وہاں مقیم رہے، اس کے بعد دیگر شہروں اور ملکوں میں علم حدیث حاصل کرنے کے لیے آتے اور جاتے رہے۔
شیوخ و اساتذہ:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جن ماہرین فن اور باکمال محدثین سے اکتساب فن کیا وہ اپنے زمانے کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ ان میں سے چند ایک کے نام زیادہ نمایاں ہیں مثلاً اسحاق بن عیسی، اسماعیل بن علیہ، سفیان بن عیینہ، ابوداود طیالسی، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالرزاق بن ہمام، فضل دبن دکین، قتیبہ بن سعید، وکیع بن جراح، یحییٰ بن آدم، یحییٰ بن سعید القطان وغیرہ۔
تلامذہ و شاگردان رشید:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے علم حدیث حاصل کرنے والوں میں بھی اپنے زمانے میں کے بڑے بڑے محدثین کے نام آتے ہیں، جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں مثلاً امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداود، ابراہیم بن اسحاق حربی، عبداللہ بن احمد، صالح بن احمد، بشر بن موسی، بقی بن مخلد، رجاء بن مرجی، ابوزرعہ دمشقی، ابوحاتم رازی، محمد بن یوسف بیکندی وغیرہ۔ اور اس میں اہم بات یہ ہے کہ بعض ایسے حضرات کے اسماء گرامی بھی امام احمد رحمہ اللہ سے سماع حدیث کرنے والے شاگردوں کے زمرے میں آتے ہیں جو خود امام احمد رحمہ اللہ کے اساتذہ و شیوخ میں سے ہیں۔ مثلاً وکیع بن جراح، یحییٰ بن آدم، امام شافعی، قتیبہ بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ۔
اخلاق و صفات:
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بےمثال حافظہ، ذہانت ذکاوت اور علم کے حامل تھے۔ اس کے علاوہ کلمہ حق کی خاطر اپنی جان لڑا دینا، قرآن و سنت پر عمل اور استقامت، خصوصاً بادشاہ وقت کے سامنے کلمہ حق کا اعلان اور پھر اس پر استقامت کے معاملہ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ضرب المثل ہیں۔ مسئلہ خلق قرآن میں امام احمد کی ابتلاء و آزمائش اور قید وصعوبت کا دور اس پر گواہ ہے۔ ان کے ایک معاصر قتیبہ کا مقولہ کہ: ”جب تم کسی کو دیکھو کہ اس کو احمد بن حنبل سے محبت ہے تو سمجھ لو کہ وہ سنت کا متبع ہے۔“
اہل و عیال:
کتب سیر میں امام احمد رحمہ اللہ کے اہل و عیال میں دو بیویوں، عباسہ اور ریحانہ، اور ایک باندی ”حسن“ کا تذکرہ ملتا ہے۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا ہوا، جس کا نام صالح تھا۔ دوسری بیوی سے بھی ایک بیٹا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ بعد ازاں انہی نے مسند احمد کو ترتیب دیا۔ باندی سے چار بچے ہوئے۔ جن کے نام بالترتیب۔ حسن، حسین، حسن اور محمد ہیں۔
وفات حسرت آیات:
241 ہجری میں ربیع الاول کے مہینہ کی پہلی تاریخ امام صاحب بیمار ہوئے اور بیماری بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ جمعہ کے دن بارہ ربیع الاول 241 ہجری کو امام صاحب خالق حقیقی سے جا ملے۔ مورخین کے مطابق امام صاحب کے جنازے میں اطراف و اکناف سے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی کہ اس سے پہلے کسی جنازے میں لوگوں کی اتنی کثیر تعداد نہیں دیکھی گئی، بعض مورخین کے مطابق ان کی نماز جنازہ میں آٹھ لاکھ مردوں اور ساٹھ ہزار خواتین کی شمولیت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد:
ان کی ولادت ماہ جمادی الثانیہ 213 ہجری میں ہوئی، جبکہ مقام پیدائش بغداد ہے، امام احمد رحمہ اللہ کے اہل و عیال کے تذکرے میں ان کی والدہ اور دیگر بہن بھائیوں کا تذکرہ آگیا ہے۔ عبداللہ ہی امام احمد رحمہ اللہ کے صحیح جانشین ثابت ہوئے اور انہوں نے ہی امام صاحب کی مسند کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اس میں بہت کچھ اضافے کیے، محدثین نے ان کی توثیق کی ہے، تاہم ایک وقت میں آ کر انہوں نے حمص کے عہدہ قضاء کو قبول کر لیا تھا، انہوں نے 77 سال کی عمر پائی اور 21 جمادی الثانیہ 290 ہجری بروز اتوار وفات پائی، نماز جنازہ ان کے بھتیجے زہیر بن صالح نے پڑھائی اور مسلمانوں کی ایک عظیم جمعیت نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔