امام نسائی نے پہلے اپنے شہر کے اساتذہ سے علم حاصل کیا، پھر علمی مراکز کا سفر کیا، سب سے پہلے آپ نے خراسان میں بلخ کے ایک شہر بغلان
(230ھ) کا رخ کیا، وہاں قتیبہ بن سعید کے پاس ایک سال دو ماہ طلب علم میں گزارا، اور ان سے بکثرت احادیث روایت کیں، نیز طالبان حدیث کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، طلب حدیث کے لیے دور دراز علاقوں کا قصد کیا، حجاز
(مکہ و مدینہ) عراق
(کوفہ و بصرہ) شام، جزیرہ، خراسان اور سرحدی علاقوں کے مراکز حدیث جن کو
«ثغور» (سرحدی علاقے) کہا جاتا ہے وغیرہ شہروں کا سفر کیا، اور مصر میں سکونت اختیار کی۔
[طبقات الشافعيه 84، تذكرة الحفاظ 2/698، مقدمه تحفة: 66]
مورخین نے آپ کے علمی اسفار کا ذکر کیا ہے، حافظ ابن کثیر آپ کے علمی اسفار کے بارے میں لکھتے ہیں:
«رحل إلى الآفاق واشتغل بسماع الحديث والاجتماع بالأئمة الحذاق» [البدايه: 123] یعنی
”امام نسائی نے دور دراز کا سفر کیا، سماع حدیث میں وقت گزارا اور ماہر ائمہ سے ملاقاتیں کیں۔
“