سوانح حیات:
خانگی پاکیزہ زندگی ، اخلاص واتباع سنت:
سید المحدثین امام المتقین فدائے سنن سید المرسلین امام بخاری رحمہ اللہ کو اپنے والد ماجد مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ کے ترکہ سے کافی دولت حاصل ہوئی تھی۔ آپ نے اس پاکیزہ مال کو بصورت مضاربت تجارت میں لگا دیا تھا۔ تاکہ خود تجارتی جھمیلوں سے آزاد رہ کر بہ سکون قلب خدمت حدیث نبوی علیہ فداہ ابی وامی کر سکیں۔
اللہ پاک نے اس تجارت کے ذریعہ آپ کو فارغ البالی عطا فرمائی تھی۔ باوجود اس کے ایام طالب علمی میں آپ نے بے انتہا فقر کیشی برداشت کیں۔ اور کسی مرحلہ پر بھی صبر و شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ وراق بخاری کے بیان کے مطابق ایک دفعہ سیدنا امام اپنے استاد آدم بن ابی ایاس کے پاس طلب حدیث کے لئے تشریف لے گئے مگر توشہ ختم ہو گیا۔ اور سفر میں تین دن متواتر گھاس اور پتوں پر گزارہ کیا۔ آخر ایک اجنبی انسان ملا اور اس نے ایک تھیلی دی جس میں دینار تھے۔
حفص بن عمر الاشقر آپ کے بصرہ کے ہم سبق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ کئی روز تک شریک درس نہ ہوئے۔ معلوم ہوا کہ خرچ ختم ہو گیا تھا اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ آپ کو بدن کے کپڑے بھی فروخت کرنے پڑ گئے۔ چنانچہ ہم نے آپ کے لئے امدادی چندہ کر کے کپڑے تیار کرائے تب آپ درس میں حاضر ہوئے۔
ابوالحسن یوسف بن ابی ذربخاری کہتے ہیں کہ اسی فقر کیشی کی وجہ سے ایک دفعہ سیدنا امام علیل ہوگئے۔ طبیبوں نے آپ کا قارورہ دیکھ کر فیصلہ کیا کہ کہ یہ قارورہ ایسے درویشوں کے قارورے سے مشابہت رکھتا ہے جو روٹیوں کے ساتھ سالن کا استعمال نہیں کرتے۔ جو صرف سوکھی روٹیاں کھا کر گزارہ کیا کرتے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ چالیس سال سے آپ کا یہی عمل ہے کہ صرف سوکھی روٹی کھا کر گزارہ کرتے رہے ہیں۔ عرض کیا گیا کہ اطباء نے آپ کے علاج میں سالن کھانا تجویز کیا ہے۔ آپ نے یہ سن کر علاج سے انکار کر دیا۔ جب آپ کے شیوخ نے بہت مجبور کیا تو روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور فرمائی۔
ابو حفص نامی بزرگ آپ کے والد ماجد کے خاص تلامذہ میں سے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ کچھ مال آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ اتفاق حسنہ کہ شام کو بعض تاجروں نے اسی مال پر پانچ ہزار منافع دے کر اسے خریدنا چاہا۔ آپ نے فرمایا کہ صبح بات پختہ کروں گا۔ صبح ہوئی تو دوسرے تاجر پہنچے اور انہوں نے دس ہزار منافع دے کر وہ مال خریدنا چاہا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے شام کو آنے والے اور صرف پانچ ہزار دینے والے تاجر کو یہ مال دے دینے کی نیت کر لی تھی۔ اب میں اپنی نیت کو توڑنا پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ آپ نے دس ہزار کے نفع کو چھوڑ دیا اور پہلے تاجر ہی کے مال حوالہ فرما دیا۔