سوانح حیات:
جامع الصحیح کے بارے میں اکابر امت کی آراء:
سیدنا امام المحدثین جبل الحفظ سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ اور آپ کی جامع الصحیح کے بارے میں ان بارہ سو برسوں میں اکابر امت نے جن آراء مبارکہ کا اظہار کیا ہے، ان سب کی جمع و ترتیب کے لیے بھی ایک مستقل کتاب درکار ہے۔ ان سب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ امام بخاری عند اللہ مقبول اور آپ کی جامع الصحیح بھی عند اللہ مقبول اور امت کے لیے بلا شک و شبہ قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح تر قابل عمل کتاب ہے۔ جو شخص بھی امام کی شان میں تنقیص و تخفیف اور آپ کی جامع الصحیح کے بارے میں شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرتا ہے وہ اجماع امت کا مخالف ہے۔ خاطی ہے، ناقابل التفات ہے بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کے لفظوں میں وہ بدعتی ہے۔
ہم بہت ہی اختصار کے پیش نظر صرف چند آرائے مبارکہ نقل کرتے ہیں۔ امید ہے کہ صاحبان صدق و صفا کے لیے یہ کافی ہوں گی اور وہ ہرگز کسی متقشف اور نامعقول ناقد کے وسواس نامعقولات سے متاثر نہ ہوں گے۔ جامع صحیح کے متعلق پہلے خود امام بخاری رحمہ اللہ کا بیان سنئیے۔ فرماتے ہیں: «لم اخرج فى هذا الكتاب الا صحبحا» میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح احادیث کی تخریج کی ہے۔ [ مقدمه فتح الباري]
اور فرمایا کہ میں نے تقریباً چھ لاکھ طرق سے جامع صحیح کی احادیث کا انتخاب کیا ہے۔
حافظ ابن الصلاح: حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ صحیح بخاری میں تمام مسند احادیث مکررات سمیت 7275 کی تعداد میں ہیں اور مکررات کو نکال دیا جائے تو چار ہزار حدیثیں رہ جاتی ہیں۔ [ مقدمه ابن الصلاح ص 8] یہ اختلاف تعداد محض مختلف الاقسام احادیث کی گنتی کے اعتبار سے ہے اس لیے دونوں بیان صحیح ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی حیات طیبہ میں نوے ہزار اشخاص نے براہ راست آپ سے اس عظیم کتاب کا درس لیا اور بلا واسطہ ان کی سند سے روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ جب اس کی جمع و تالیف سے فارغ ہوئے تو آپ نے اسے امام احمد بن حنبل اور امام یحییٰ بن معین اور امام علی بن مدینی وغیرہ اکابر امت کے سامنے پیش کیا۔ سب نے متفقہ طور پر اس کتاب کو مستحسن قرار دیا۔ اور اس کی صحت کی گواہی دی۔ بعض حضرات نے صرف چار احادیث سے متعلق اپنا خیال ظاہر کیا۔ مگر آخر میں ان کے متعلق بھی امام بخاری ہی کا خیال شریف صحیح ثابت ہوا۔ [ مقدمه فتح الباري ص 578]
حافظ ابن حجر: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ امام قدس سرہ نے اپنی جامع صحیح کو مذکورہ بزرگوں کے علاوہ وقت کے دیگر مشائخ و فقہاء و محدثین کے سامنے بھی پیش کیا۔ سب نے متفقہ طور پر اس کتاب کی صحت کی تصدیق و توثیق فرمائی۔
ملا علی قاری: ملا علی قاری نے مشائخ عصر کے یہ لفظ نقل کئے ہیں: «انه لا نظير له فى بابه» [ مرقاة جلد اول ص 15] یعنی ”جامع صحیح اپنے باب میں بے نظیر کتاب ہے“۔
امام نسائی: امام نسائی فرماتے ہیں: «اجود هذه الكتب كتاب البخاري واجمعت الامة على صحة هذين الكتابين» یعنی ”امت کا صحیح بخاری و صحیح مسلم ہر دو کتابوں کی صحت قطعی پر اجماع ہو چکا ہے اور جملہ کتب احادیث میں صحیح بخاری سب سے افضل ہے“۔
امام فضل بن اسماعیل جرجانی: البدایہ والنہایہ جلد یاز دہم ص 28 پر امام فضل بن اسماعیل جرجانی کا ایک قصیدہ بابت مدح بخاری شریف منقول ہے جس کا خلاصہ یہ کہ صحیح بخاری سند اور متن کے اعتبار سے اس قدر اعلٰی درجہ کی کتاب ہے کہ اس کی افضیلت پر جملہ اہل علم کا اتفاق اور اجماع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لیے یہ کتاب وہ کسوٹی ہے جس کے آگے عرب و عجم سب نے سر تسلیم خم کیا ہے۔ بلاشک صحیح بخاری آب زر سے لکھنے جانے کے قابل ہے۔