سوانح حیات:
قوت حافظہ:
➊ مفر بن مساور کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا: کیا آپ حدیث یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس پر ان کا (غصے سے) رنگ بدل گیا اور فرمایا: میں نے کبھی حدیث یاد کرنے کی محنت نہیں کی، بس کتاب پکڑتا ہوں اور اس میں نظر دوڑاتا ہوں، جو چیز مجھے اچھی لگے، وہ میرے دل سے چمٹ جاتی ہے۔ [تاريخ بغداد: 165/10]
➋ حسن بن عیسٰی بیان کرتے ہیں کہ:
مجھے صخر نے جو ابن مبارک رحمہ اللہ کے دوست ہیں، خبر دی کہ ہم بچے تھے اور مکتب میں پڑھتے تھے۔ میں اور ابن مبارک رحمہ اللہ گزرے، ایک آدمی خطاب کر رہا تھا، اس نے بہت لمبی تقریر کی۔ جب وہ فارغ ہوا تو ابن مبارک نے کہا: ”میں نے یہ خطبہ یاد کر لیا ہے“، لوگوں میں سے ایک آدمی نے ان کی بات سنی تو کہنے لگا: بیان کرو، تو انہوں نے سارا خطبہ سنا دیا، وہ یقیناً یاد کر چکے تھے۔ [تاريخ بغداد: 10/ 166، 165]
➌ نعیم بن حماد نے کہا کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا: ”مجھ سے میرے باپ نے کہا کہ اگر میں نے تیری کتابیں پالیں تو انہیں جلا دوں گا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں، وہ سب میرے سینے میں محفوظ ہیں“۔ البتہ آپ کا معمول تھا کہ حدیث بیان کرتے وقت کتاب سے بیان کرتے، نہ کہ حافظے سے، تاکہ غلطی کا احتمال ختم ہو جائے۔
➍ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن مبارک رحمہ اللہ کتاب سے حدیث بیان کیا کرتے تھے تو ان کی غلطیاں زیادہ نہیں ہوتی تھیں اور وکیع اپنے حافظے سے حدیث بیان کیا کرتے تھے تو ان کی غلطیاں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 407، 481]
➎ ابوصالح فراء کہتے ہیں کہ:
میں نے ابن مبارک رحمہ اللہ سے علم کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر کتاب نہ ہوتی تو ہم یاد نہ کر پاتے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 409]