سوانح حیات امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ
سوانح حیات​:​
مالی اعانت اور غم گساری:
➊ سلمہ بن سلیمان کہتے ہیں کہ:
ایک آدمی ابن مبارک رحمہ اللہ کے پاس آیا اور آپ سے درخواست کی کہ اس کا قرض اتار دیں تو انہوں نے اپنے خزانچی کی طرف اس کے لیے رقعہ لکھ دیا، جب رقعہ خزانچی کے پاس پہنچا تو اس نے مقروض سے پوچھا: کہ تمہارے اوپر کتنا قرض ہے، جس کی ادائیگی کے لیے درخواست کی ہے؟ اس نے کہا کہ سات سو درہم ہیں اور اچانک عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے رقعے میں، اسے دینے کے لیے سات ہزار درہم لکھے ہوئے تھے، اس پر وکیل نے ان کی طرف رجوع کیا اور کہا کہ بے شک غلے اور اناج ختم ہو چکے ہیں۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اس کی طرف لکھا کہ اگر غلے ختم ہو چکے ہیں تو زندگی بھی یقینا ختم ہو چکی ہے، تم اسے اتنے ہی دو جتنے کے میرے قلم سے پہلے لکھے جاچکے ہیں۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 386]
➋ محمد بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ طرطوس کی طرف بہت زیادہ آیا جایا کرتے تھے اور رقہ شہر میں ایک سرائے میں ٹھہرا کرتے تھے۔ وہاں ایک نوجوان کی ان کے پاس آمدو رفت رہتی، وہ ان کی ضروریات کا خیال رکھتا اور آپ سے حدیث کا سماع کیا کرتا۔ ایک دفعہ عبد اللہ رحمہ اللہ وہاں آئے تو وہ نظر نہ آیا، آپ جلدی میں تھے، وہاں سے چل دیئے، جب لوٹے تو اس نوجوان کے بارے میں دریافت کیا، بتلایا گیا کہ وہ دس ہزار درہموں (کے قرضے) کی وجہ سے قید میں ہے، چنانچہ آپ نے قرض خواہ کا کھوج لگایا اور اسے دس ہزار درہم دے دیئے اور اس سے قسم لی کہ جب تک وہ زندہ ہے کسی کو خبر نہیں دے گا، اس نوجوان کو رہائی دی گئی اور ابن مبارک ہے وہاں سے چل پڑے۔ وہ نوجوان انہیں رقہ سے دو مرحلوں پر آملا، وہ کہتا ہے کہ انہوں نے مجھ سے کہا: اے نوجوان! تو کہاں تھا؟ میں نے تجھے دیکھا نہیں تھا۔ اس نے کہا: کہ اے ابوعبد الرحمن! میں قرض کے باعث قید و بند میں تھا۔ انہوں نے کہا: کہ نجات کیسے پائی؟ اس نے کہا: کہ ایک آدمی آیا اور اس نے میرا قرض ادا کر دیا اور مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے۔ اس نوجوان کو عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ہی حقیقت حال کا علم ہو سکا۔ [تاريخ بغداد: 10/ 159]
➌ امام عبد اللہ بن مبارک اللہ بہت بڑے تاجر تھے، اسی وجہ سے آپ صلحاء اور اہل علم کی مالی مدد کیا کرتے، اپنی دولت کو گویا علم کے راستے میں وقف کر دیا تھا۔ فضیل بن عیاض مشہور زاہد سے کہا: کہ اگر آپ اور آپ کے ساتھی نہ ہوتے، تو میں تجارت کا پیشہ اختیار ہی نہ کرتا، وہ ہر سال فقراء پر ایک لاکھ درہم خرچ کیا کرتے۔
➍ حبان بن موسیٰ کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ پر اس بات کی قدغن لگائی کہ وہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں مال تقسیم کرتے ہیں۔ اس تھے۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ: بے شک میں ان لوگوں کے مقام اور فضل و صدق کو پہچانتا ہوں، انہوں نے حدیث کو تلاش کیا اور اس کی اچھی طلب کی، لوگوں کے ان کی طرف احتیاج کے سبب وہ خود مختاج ہو گئے۔ اگر ہم ان کو چھوڑ دیں گے تو ان کا علم ضائع ہو جائے گا اور اگر ہم ان کی اعانت کریں گے تو وہ محمد صلى الله عليه وسلم کی امت کے لیے علم کی شمع کو روشن کیے رکھیں گے، میں نہیں جانتا کہ علم نبوت کو پھیلانے سے بڑا بھی کوئی اعزاز ہوسکتا ہے۔ [تاريخ بغداد: 10/ 160]
➎ مسیب بن واضح کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ابوبکر بن عیاش کی طرف چار ہزار درہم بھیجے اور فرمایا: ان کے ذریعے اپنے آپ سے لوگوں کا فتنہ روکیے۔ یعنی فکر معاش علم پھیلانے کے رستے میں رکاوٹ نہ بنے، نہ ہی حق گوئی میں مانع ثابت ہو اور لوگوں کی پیشانیوں کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.