سوانح حیات:
سند کی اہمیت:
➊ مسیب بن واضح کہتے ہیں کہ:
میں نے ابن مبارک رحمہ اللہ کو سنا، ان سے ایک آدمی نے پوچھا: کہ وہ کس سے حدیث لے؟ تو انہوں نے فرمایا: ”کبھی آدمی ثقہ آدمی سے ملتا ہے اور وہ غیر ثقہ سے بیان کر رہا ہوتا ہے اور بھی غیر ثقہ سے ملتا ہے اور وہ ثقہ سے بیان کر رہا ہوتا ہے، لیکن ہونا یہ چاہیے کہ ثقہ ثقہ سے روایت کرے۔“ [سير أعلام النبلاء: 404/8]
➋ عبدان بن عثمان کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
«الإسناد من الدين، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء» [صحيح مسلم مع الشرح: 1/ 12]
”سند دین میں سے ہے اور اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔“
➌ عباس بن رزمہ کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
«بيننا وبين القوم القوائم يعني الإسناد» [صحيح مسلم مع الشرح: 1/ 12]
”ہمارے اور قوم کے درمیان سند ہے۔“
➍ ابواسحاق ابراہیم بن عیسی طالقانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا: اے ابوعبد الرحمن! ”وہ حدیث جس میں آیا ہے کہ بےشک نیکی کے بعد نیکی میں سے ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھے، اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھے (اس کے بارے کیا خیال ہے؟)“ تو ابن مبارک نے فرمایا: ”اے ابواسحاق! یہ کس (راوی) سے ہے“؟ میں نے کہا: ”کہ یہ شہاب بن خراش سے ہے“، تو انہوں نے کہا: ”کہ وہ ثقہ ہے۔ وہ کس سے روایت کرتا ہے“؟ میں نے کہا کہ: ”حجاج بن دینار سے“، انہوں نے کہا کہ ”وہ بھی ثقہ ہے وہ کس سے روایت کرتا ہے“؟ میں نے کہا کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے“۔ انہوں نے کہا کہ: ”اے ابواسحاق! حجاج بن دینار اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کئی صحرا ہیں، جن میں سواریوں کی گردنیں کٹ جائیں اور لیکن صدقے میں کوئی اختلاف نہ ہو۔“ (صحیح مسلم مع الشرح: 1/ 12) کیوں کہ حجاج بن دینار تبع تابعی ہیں۔ ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کم از کم دو واسطے ضرور ہیں، ایک تابعی کا اور دوسرا صحابی رضی اللہ عنہ کا۔ یعنی اس سند کا بہت زیادہ انقطاع ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے۔ لہٰذا نماز اور روزے میں نیابت نہیں ہے اور یہ کہ فرض روزہ ہو اور میت کی طرف سے اس کا ولی قضا دے۔ البتہ صدقہ میت کی طرف سے دیا جا سکتا ہے۔ [شرح صحيح مسلم: 1/ 12]
➎ علی بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا وہ لوگوں کے مجمع میں کہہ رہے تھے: ”عمرو بن ثابت کی حدیث کو چھوڑ دو کیوں کہ وہ سلف (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کو گالی دیا کرتا تھا۔ [صحيح مسلم مع الشرح: 12/1]
یعنی وہ بدعتی راوی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر دشنام طرازی کرنے والا، یا غالی رافضی ہوگا یا خارجی۔ دونوں بدعتی ہیں۔
پوچھا کہ: ”کس راوی سے حدیث لیں؟ فرمایا: جس نے اللہ کے لیے علم حاصل کیا اور اس کی سند کے معاملے میں سب سے سخت ہو“۔ [تذكرة الحفاظ: 1/ 277]