سوانح حیات:
مقام و مرتبہ:
➍ عباس بن مصعب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”عبد اللہ (بن مبارک رحمہ اللہ) نے حدیث، فقہ، عربیت، لوگوں کے ایام (تاریخ) شجاعت و بسالت، سخاوت، تجارت اور فراق کے وقت محبت جیسے اوصاف کو جمع کیا“۔ [سير أعلام النبلاء: 383/8]
➎ امام یحی بن آدم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”جب میں دقیق مسائل تلاش کرتا اور انہیں ابن مبارک رحمہ اللہ کی کتابوں میں نہ پاتا تو مایوس ہو جاتا۔“ [سير أعلام النبلاء: 383/8]
➏ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”چار آدمیوں جیسا میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا، ثوری سے بڑھ کر حافظ حدیث، شعبہ سے زیادہ زاہدانہ طرز زیست والا، مالک سے بڑھ کر عقل مند اور ابن مبارک سے زیادہ امت کا خیر خواہ کوئی نہیں دیکھا۔“ [سير أعلام النبلاء: 388/8]
➐ ابواسحاق فزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
”ابن مبارک اللہ تمام مسلمانوں کے امام ہیں۔“
➑ عمار بن حسن جمال ابن مبارک ارحمہ اللہ کی مدح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«اذا ســار عبـد الـلـــه مــن مــرو ليلة
فقد سار منها نورها وجمالها
اذا ذكر الأحبـار فـي كــل بـــــلــدة
فهم أنجـم فيهـا وأنت هلالها» [سير أعلام النبلاء: 391/8]
”جب عبد اللہ مرو سے ایک رات چلے جاتے ہیں تو اس ”مرو“ کا اجالا اور رعنائیاں بھی ساتھ چلی جاتی ہیں، جب ہر شہر میں علماء کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ ستارے ہوتے ہیں اور آپ ان میں چاند ہوتے ہیں۔“
➒ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی موجودگی میں ایک شخص نے کہا:
کہ عبد اللہ بن مبارک اللہ حافظ حدیث نہ تھے۔ امام یحیی بن معین فرمانے لگے:
”عبداللہ اللہ بڑے سمجھ دار، پختہ علم والے، ثقہ اور صحیح حدیث کو جاننے والے تھے۔ ان کی وہ کتابیں جن سے وہ احادیث بیان کیا کرتے تھے، بیس ہزار یا اکیس ہزار تھیں۔“ [تاريخ بغداد: 10/ 164]
➓ اسود بن سالم کہتے ہیں:
«كان ابن المبارك اماما يقتدى به، كان من أثبت الناس فى السنة، اذا رأيت رجلا يغمز ابن المبارك فاتهمه على الاسلام» [تاريخ بغداد: 10/ 167]
”عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ امام و مقتدی تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ سنت پر کار بند اور ثابت قدم رہنے والے تھے، جب تو ایسے آدمی کو دیکھے جو ابن مبارک کی تنقیص کرتا ہے تو اس کو اسلام پر متہم سمجھو (اس کا اسلام مشکوک ہے۔)“
⓫ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میں نے چار ہزار شیوخ اور اساتذہ سے علم حاصل کیا اور ایک ہزار سے روایت کی“، عباس بن مصعب کہتے ہیں کہ: ”میں نے ان کے اساتذہ کی تنتبع اور جستجو کی تو مجھے ان کے آٹھ سو شیوخ مل گئے“۔ [سير أعلام النبلاء: 397/8]
⓬ حسن بن عیسٰی بن ماسرجس (ابن مبارک کے آزاد کردہ غلام) کہتے ہیں کہ:
”فضل بن موسیٰ اور مخلد بن حسین (جیسے محدثین کی) جماعت جمع ہوئی اور کہنے لگے کہ آؤ، خیر و بھلائی کی خوبیاں جو ابن مبارک رحمہ اللہ میں پائی جاتی ہیں، انہیں شمار کرتے ہیں، تو وہ کہنے لگے علم، فقاہت، ادب، نحو، لغت، زہد، فصاحت، شعر، قیام اللیل، عبادت، حج، غزوہ، شجاعت، شہسواری، قوت، لایعنی چیزوں میں ترک گفتگو، انصاف اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کم اختلاف“۔ [سير أعلام النبلاء: 8 / 397، شرح صحيح مسلم: 1/ 12]