سوانح حیات:
امام طبرانی پر بعض اعتراضات اور ان کا جواب:
امام طبرانی کی عظمت و جلالت کے باوجود ان پر بعض اعتراضات کیے گئے ہیں، ذیل میں دو اعتراضات نقل کیے جاتے ہیں:
➊ پہلا اعتراض ان کے تفرد کے بارے میں ہے، اسماعیل بن محمد بن فضل تیمی نے ان کے افراد و غرائب پر مشتمل حدیثوں کو جمع کرنے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان حدیثوں میں نکارت پائی جاتی ہے اور یہ موضوع اور طعن و قدح سے خالی نہیں ہیں۔
➋ ان پر وہم و خطا اور نسیان کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے، اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ انھوں نے مغازی و سیر کے باب میں مصر کے احمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم برقی سے روایت کی ہے، اس نام میں ان کو وہم ہوا ہے، اصل میں راوی احمد کے بجائے ان کے بھائی عبدالرحیم ہیں کیونکہ احمد طبرانی کے مصر جانے سے دس سال پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔
ابن مندہ نے بھی اس کی وجہ سے ان پر طعن کیا ہے اور ابوبکر بن مردویہ نے اسی بنا پر انھیں ”لین“ قرار دیا ہے، ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ طبرانی کی جانب سے صاف نہ تھے، ابن مردویہ کی جانب سے خفگی کی ایک وجہ یہ بھی منقول ہے کہ انھوں نے بغداد جا کر جب ان حدیثوں کی تحقیق و تفتیش کی جن کو ان سے طبرانی نے ادریس سے اور ادریس نے یزید بن ہارون سے اور انھوں نے روح بن عبادہ کے واسطہ سے بیان کیا تھا تو انھیں، بہت کم حدیثوں کا پتہ چلا، علاوہ ازیں یہ معلوم ہوا کہ اہلِ بغداد کے نزدیک ادریس کا پایہ بلند نہ تھا، اس لیے وہ ان سے زیادہ حدیثیں روایت نہیں کرتے تھے، مگر امام طبرانی کے نزدیک ادریس مغتنم لوگوں میں سے تھے۔
اسی نوعیت کا ایک اور اعتراض حاکم نے علوم الحدیث میں تحریر کیا ہے کہ ابوعلی نیشاپوری امام طبرانی کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے، اس کا سبب یہ تھا کہ طبرانی نے شعبہ کی ایک حدیث بیان کی اور کہا کہ یہ ان کو غندر اور شبابہ کے واسطہ سے ملی ہے، ابوعلی نے سوال کیا کہ آپ سے اس کو کس نے روایت بیان کی ہے؟ انھوں نے کہا: عبداللہ بن احمد نے اپنے والد سے، انھوں نے غندر اور شبابہ سے، حالانکہ یہ غندر کی حدیث نہ تھی۔ [لسان الميزان: 73/3]
اعتراضات کا جواب:
ان اعتراضات کا نمبروار جواب یہ ہے کہ:
① امام طبرانی کو طویل عمر ملی اور ان سے بے شمار حدیثیں منقول ہیں، اس لیے ان کے یہاں تفرد کی بھی کثرت ہے، لیکن اربابِ فن نے ان کے تفرد کو منکر قرار نہیں دیا ہے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ کثرتِ روایت کی وجہ سے امام طبرانی کے تفرد کو منکر نہیں قرار دیا جاتا۔
حافظ ابن حجر نے تیمی کے مذکورہ بالا اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
”افراد و غرائب جمع کرنے کا معاملہ صرف طبرانی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، اکثر قدیم محدثین کا یہی حال تھا کہ وہ تفرد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اور اپنی ذمہ داری سے برأت کے لیے احادیث کو ان کی اصل سندوں کے ساتھ بیان کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔“
② دوسرے اعتراض میں بعض ناموں کے بارے میں امام طبرانی کے سہو و نسیان کا ذکر ہے، اس کتاب میں یہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ وہم و نسیان علمائے فن کے نزدیک مانع ثقاہت اور قابلِ اعتراض نہیں۔ چنانچہ حافظ ذہبی اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”یہ زیادہ اہم بات نہیں، احمد بن منصور شیرازی فرماتے ہیں کہ ”میں نے ان سے تین لاکھ حدیثیں لکھیں، وہ ثقہ تھے، البتہ مصر کے ایک شیخ سے انھوں نے حدیث لکھی اور غلطی سے اس کو ان کے بجائے ان کے بھائی کی جانب منسوب کر دیا۔“ [تذكرة الحفاظ: 130/3]
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن مردویہ نے جو روایت کی اس بنیاد پر بھی طبرانی کو مجروح اور قابلِ طعن قرار دینا زیادتی ہے، رہی یہ بات کہ وہ طبرانی کی جانب سے صاف نہ تھے تو یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ وہ خود ان کے حلقۂ فیض سے وابستہ تھے اور ان سے حزم و احتیاط کے ساتھ حدیثیں بھی نقل کرتے تھے، چنانچہ حافظ ابونعیم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے طبرانی سے حدیثیں روایت کی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں، میں ان سے احتیاط کے ساتھ روایتیں کرتا ہوں۔ حافظ ضیاء کا بیان ہے کہ ابن مردویہ نے خود اپنی تاریخ میں طبرانی کا ذکر کیا ہے لیکن ان کی تضعیف نہیں کی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طبرانی ثقہ و ثبت تھے اور ابن مردویہ کے نزدیک بھی ان کی ثقاہت مسلم تھی۔ [أيضًا]
اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ ابن مردویہ کو واقعی ان سے بدگمانی تھی تو تنہا ان کی ذاتی رائے کی وجہ سے طبرانی کو ضعیف اور غیر معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ابوعلی نیشاپوری کے بیان میں بھی وہم و نسیان کا ذکر ہے، اس کا جواب بھی مندرجہ بالا توضیح سے ہو گیا، لیکن حافظ ابن حجر کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں طبرانی کو کوئی وہم نہیں ہوا تھا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
ابونعیم نے ابوعلی کا تعاقب کرتے ہوئے غندر کی حدیث کو ابوعلی بن صواف سے اور انھوں نے عبداللہ بن احمد سے اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح طبرانی نے بیان کیا ہے، اس سے طبرانی کا بری الذمہ ہونا ظاہر ہوتا ہے، حافظ ضیاء نے طبرانی کے دفاع میں ایک رسالہ لکھا تھا، جس میں وہ اس اعتراض کی تفصیل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
«لَوْ كَانَ كُلُّ مَنْ وَهِمَ فِيْ حَدِيْثٍ أَوْ حَدِيْثَيْنِ أُتُّهِمَ لَكَانَ هٰذَا لَا يَسْلَمُ مِنْهُ أَحَدٌ.» [لسان المیزان، ج 3، ص: 74]
”اگر اسی طرح ہر شخص کو ایک یا دو حدیثوں میں وہم کی وجہ سے متہم قرار دیا جائے تو کوئی شخص بھی الزام و اعتراض سے بچ نہیں سکتا۔“
اس تفصیل سے ان اعتراضات کی حقیقت واضح ہوگئی اور یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اگر یہ صحیح بھی ہوں تو ان سے ان کی عظمت و اہمیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔