سوانح حیات:
ابوبکر چغابی سے ایک دلچسپ مناظرہ:
امام طبرانی کے علم و فضل اور حدیث میں عظمت و کمال کا اندازہ اس مناظرہ سے بھی ہوتا ہے جو ان کے اور ابوبکر چغابی کے درمیان ہوا تھا، صاحب بن عباد بیان کرتے ہیں:
مجھے دنیا میں وزارت سے زیادہ کوئی چیز مرغوب اور عزیز نہ تھی اور میں اس سے زیادہ کسی منصب کو اعلیٰ اور برتر نہیں خیال کرتا تھا، کیونکہ اسی کی بدولت مجھے ہر طرح کا اعزاز اور ہر طبقے میں مقبولیت حاصل تھی، لیکن ایک روز میرے سامنے مشہور محدث ابوبکر چغابی اور ابوالقاسم طبرانی میں حدیث کے بارے میں ایک مباحثہ ہوا، حفظ و ضبط میں طبرانی اور ذہانت و فطانت میں چغابی فائق معلوم ہوتے تھے، یہ مباحثہ دیر تک ہوتا رہا، دونوں طرف سے بڑے جوش و خروش کا اظہار اور پر زور آوازیں بلند ہو رہی تھیں، اسی اثنا میں چغابی نے کہا: میرے پاس ایک حدیث ایسی ہے جو اور کسی کو معلوم نہیں، طبرانی نے اسے بیان کرنے کے لیے کہا تو انھوں نے فرمایا:
«حدثنا ابوخليفة قال حدثنا سليمان بن ايوب ابوالقاسم ............»
”ہم سے ابوخلیفہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن ایوب ابوالقاسم نے روایت کی ......۔“
طبرانی نے کہا: جناب! سلیمان بن ایوب تو میں ہی ہوں اور ابوخلیفہ میرے شاگرد ہیں، اگر آپ اس حدیث کو میرے واسطہ سے بیان کریں تو آپ کی سند زیاده عالی ہو گی، اس سے بے چارے ابوبکر بہت نادم ہوئے، ان کی ندامت اور طبرانی کی فتح و مسرت دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ کاش میں طبرانی ہوتا تو آج وہی سرور و انبساط اور غلبہ و کامرانی جو انھیں حاصل ہوئی ہے، مجھے حاصل ہوتی، یہ منظر دیکھ کر میرے دل سے وزارت کی اہمیت جاتی رہی کیونکہ علم و فضل کی بدولت اس سے کہیں بڑھ کر اعزاز و اکرام اور جاہ و مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ [تذكرة الحفاظ: 129/3]
بعض مؤرخین نے صاحب بن عباد کے بجائے ابن عمید کی نسبت سے یہ واقعہ تحریر کیا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس پر بڑا دلچسپ اور بہترین تبصرہ فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں:
ایں تمنا و آرزوے ہم از بقائے ...... وزارت و ریاست او بود والا علمائے
ربانیین را بسبب ایں غلبہ ہائے ...... تغیرے نمی شود و نفس ایشاں بحرکت
نمی آید ولکن المرء یقيس على نفس ...... [بستان المحدثين، ص: 55]
”صاحب بن عباد کا اس قسم کی آرزو و تمنا کرنا درحقیقت وزارت و ریاست ہی کے اثر کا نتیجہ تھا، ورنہ علمائے ربانی کے اندر اس طرح کی فتح و کامرانی کے بعد بھی کوئی عجیب تبدیلی نہیں آتی، اور نہ ان کی طبیعتیں اس قسم کے واقعات سے متاثر ہوتی ہیں، مگر آدمی دوسروں کو بھی اپنے ہی اوپر قیاس کرتا ہے۔“