سوانح حیات:
شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ مولوی حبیب الرحمن اعظمی حنفی کا غیر محسنانہ رویہ:
مصنف عبدالرزاق، مسند الامام الحمیدی، سنن سعید بن منصور اور مسند اسحق بن راہویہ وغیرہ کے محقق شیخ حبیب الرحمن اعظمی حنفی جب 1398ھ میں دمشق کے سفر پر گئے تو انہوں نے محدث رحمہ اللہ کے گھر پر ہی بطور مہمان قیام کیا۔ آپ نے مولوی حبیب کی بے حد عزت کی۔ المکتبۃ الظاھریۃ کے مخطوطات کی زیارت کرائی، متعدد علماء سے ملاقات کرانے کی غرض سے ان کے ساتھ ساتھ گئے لیکن مولوی حبیب نے ہندوستان واپس جانے پر محدث رحمہ اللہ کی تردید میں ” الألبانی شذوذہ و أخطاؤہ“ نامی کتاب لکھی جو چار جلدوں میں مکتبۃ دارالعروبۃ للنشر والتوزیع (کویت) سے 1404ھ میں طبع ہو چکی ہے۔ جب شیخ رحمہ اللہ کو اس کتاب کی بابت بتایا گیا تو آپ نے اس کا جواب دینے پر صبر کرنے کو ترجیح دی اور فقط اس قدر کہا کہ ”جب شیخ اعظمی میرے گھر پر مقیم تھے تو میں نے کئی بار ان سے مختلف اختلافی اور مسلکی مسائل پر گفتگو کرنا چاہی تھی مگر وہ کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتے تھے۔ میں نے ان کی خاموشی کو ان کی کم گوئی اور پیرانہ سالی کے باعث سفر کی تکان پر محمول کرتے ہوئے اپنا ارادہ ترک کر دیا تھا۔“ لیکن شیخ رحمہ اللہ کے ایک شاگرد شیخ سلیم الہلالی نے شیخ اعظمی کے ردود کا بہت مفصل جائزہ لیا ہے اور ان کے اعتراضات کا بہت شافی جواب لکھا ہے جو حسن اتفاق سے شیخ اعظمی کی زندگی ہی میں طبع بھی ہو چکا ہے۔ «فجزاه الله أحسن الجزاء»
خود راقم نے شیخ اعظمی کی مذکورہ بالا کتاب اور شیخ سلیم الہلالی کا جواب حرف بحرف پڑھا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ شیخ اعظمی نے مذکورہ کتاب لکھ کر یقیناً مجموعی طور پر محدثِ نبیل رحمہ اللہ پر ظلم کیا ہے، «فإنالله وإنا إليه راجعون»