سوانح حیات:
شام ، عمان ، بیروت کی طرف ہجرتیں:
شیخ کی شام سے عمان پھر واپس شام پھر بیروت پھر امارت اور پھر عمان کی طرف ہجرتیں
ابتلاء اللہ تعالیٰ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مؤمن بندہ پر جاری فرماتا ہے حتیٰ کہ اس سنت ِالٰہی کے تحت رسول صلوات اللہ و سلامہ علیہم بھی مختلف النوع ابتلاء ات سے دو چار کئے گئے۔ متعدد بار یہ سنت شیخ رحمہ اللہ پر بھی جاری ہوئی۔ اپنی ہجرتوں کے متعلق عزیمت کے یہ پیکر خود فرماتے ہیں:
”پہلی بار میں نے اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ ماہ رمضان 1400ھ میں دمشق سے عمان کی طرف ہجرت کی اور وہاں اس امید پر مکان بنوانا شروع کیا کہ باقی زندگی یہیں گزاروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و انعام سے میرے لئے یہ مرحلہ آسان فرما دیا۔ تعمیر کے سلسلہ میں بہت زیادہ بھاگ دوڑ اور بیماری کے بعد مکان کی طرف سے مجھے قدرے سکون میسر ہوا۔ لیکن میرا ذاتی کتب خانہ دمشق ہی میں چھوٹ گیا تھا۔ عمان لے جانے میں درپیش دشواریوں کے باعث اس کتب خانہ کی منتقلی ممکن نہ ہوئی تھی، لیکن ہر دن مجھے بارش سے اس کے خراب ہو جانے کا خدشہ لاحق رہتا تھا۔ بہرحال جب اردن کے بعض بھائیوں نے محسوس کیا کہ میں گھر میں فارغ بیٹھا ہوں تو ان لوگوں نے مجھ سے دروس کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ان لوگوں نے ماضی میں عمان کی طرف ہجرت سے قبل میرے دروس سنے تھے کیونکہ میں ہر ماہ یا ہر دوسرے ماہ وہاں جاتا اور ایک دو درس دیا کرتا تھا… میں نے ان بھائیوں سے وعدہ کر لیا کہ ہر جمعرات کو نماز مغرب کے بعد انہی میں سے ایک شخص کے گھر جو کہ میرے گھر سے قریب تھا، میں درس دیا کروں گا۔ میں نے پہلے دو درس ریاض الصالحین للنووی رحمہ الله سے اپنی تحقیق و تشریح کے ساتھ دیئے، پھر حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے جو کہ بہت زیادہ تھے۔ سوالات کی کثرت ان کی شدید علمی رغبت اور معرفت ِسنت کی تشنگی کے مظہر تھے۔ لیکن ابھی تیسرے درس کے لئے تیاری کر ہی رہا تھا کہ بروز بدھ 19 ؍شوال 1401ھ کو دوپہر کے وقت مجھے اطلاع دی گئی کہ آپ کا مکان یہاں باقی نہیں رہا ہے۔ پس میرے لئے دمشق واپس جانے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ گیا تھا۔ میں غم و اندوہ کے عالم میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا تھا کہ مجھ سے شر اور دشمنوں کے کینہ کو دور فرما۔ دو راتیں اسی کرب و بے چینی میں گزریں۔ آخر کار تیسری رات میں نے استخارہ اور مشورہ کے بعد بیروت جانے کا فیصلہ کر لیا، حالانکہ وہاں کے حالات بہت پرخطر اور پرفتن تھے۔ میں بیروت رات کے آخری پہر میں پہنچا، اپنے ایک پرانے بھائی کے گھر کا قصد کیا۔ اس نے بھی نہایت لطف و کرم اور ادب کے ساتھ میرا استقبال کیا اور مجھے اپنے گھر معزز و مکرم مہمان رکھا۔ بیروت میں کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ میں بیروت سے الامارات کی طرف ہجرت کے لئے مجبور ہو گیا جہاں أہل السنۃ والجماعۃ سے وابستہ بعض محبین نے میرا استقبال کیا۔ الامارات میں قیام کے دوران میں نے کویت اور قطر وغیرہ خلیجی ممالک میں دروس دیئے اور پھر وہاں سے بھی عمان کی طرف مہاجر ہوا۔“