سوانح حیات محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
سوانح حیات​:​
مدینہ یونیورسٹی میں شیخ کی تقرری اور وہاں کے تعلیمی نظام پر آپ کے اثرات:
استاذ عید عباسی اور علی خشان، شیخ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس جہد متواصل کے نتیجہ میں حدیث، فقہ اور عقائد وغیرہ کے موضوعات پر شیخ رحمہ اللہ کی بیشتر نفع بخش مؤلفات معرضِ وجود میں آئیں جو اہل علم و فضل کے نزدیک شیخ سے محبت کا باعث بنیں۔ ان مؤلفات میں فہم صحیح، حدیث، اس کے علوم، اس کے رجال وغیرہ کی درایت فائقہ اور صائب علمی منہج وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ ان کتب میں ہر چیز کے لئے صرف کتاب و سنت کو ہی حکم اور میزان و معیار بنایا گیا تھا۔ ان کے علاوہ سلف صالح کے فہم اور ان کے طریقہ ٔ تفقہ واستنباطِ احکام سے ہدایت و رہنمائی بھی حاصل کی گئی تھی…
جب مدینہ منورہ میں الجامعۃ الاسلامیۃ (مدینہ یونیورسٹی) کی تاسیس ہوئی تو چانسلر مدینہ یونیورسٹی اور مفتی ٔ عام برائے سعودی عرب شیخ علامہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ نے حدیث، علوم الحدیث اور فقہ الحدیث کو جامعہ میں پڑھانے کے لئے شیخ موصوف کو ہی منتخب کیا۔ یہاں آپ تین سال (یعنی 1381ھ سے 1383ھ کے اختتام تک) استاذِ حدیث رہے۔ اس دوران جامعہ میں آپ جہد و اخلاص کی مثال بنے رہے حتیٰ کہ دروس کے دوران ہونے والے وقفہ میں آپ طلباء کے ساتھ ریت پر بٹھ جایا کرتے اور وہاں بھی علمی مباحث کا سلسلہ شروع کر دیتے تھے۔ جبکہ اس وقفہ کے دوران دوسرے اساتذہ اپنے اپنے کمروں میں جا کر چائے اور ناشتہ وغیرہ میں مصروف ہو جاتے تھے۔ جب بعض اساتذہ اور طلباء ان کے پاس ریت پر سے گزرتے تو یہ پکار اٹھتے تھے: «هذاهوا الدرس الحقيقي وليس الذى خرجت منه أوالذي سنعود إليه» حقیقی درس تو یہ ہے، نہ کہ وہ جس سے ابھی ہم نکلے ہیں یا اس کی طرف لوٹیں گے۔ آپ کے اس اخلاص اور آپ کے ساتھ طلباء کے غیر معمولی تعلق خاطر، محبت اور جامعہ کے اندر و باہر آپ کی شفقت کہ جس سے آپ کے معاصر اساتذہ محروم تھے، نے بعض لوگوں کے دلوں میں حسد کا بیج بو دیا… چنانچہ اساتذہ میں سے بعض حاسدین نے جامعہ کے مسئولین کو ان کے خلاف ابھارنا شروع کیا، پھر انہی حاسدین نے افتراءات، بہتان اور جھوٹی شہادتوں کا سہارا لیا، یہاں تک کہ جامعہ کی انتظامیہ نے ان کی خدمات کے اختتام کا فیصلہ کیا اور آپ ایک سچے مؤمن کی طرح اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہو گئے۔ البتہ جب شیخ رحمہ اللہ اپنے متعلق افتراءات اور تہمتوں کو سنتے تھے تو یہی کہتے تھے: «حسبنا الله و نعم الوكيل»
آپ کے متعلق شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کے یہ کلمات قابل ذکر ہیں: «حينماكنت تقوم بواجب الدعوة لافرق عندك، و ذلك لمعرفته بقوة إيمانه بالله العظيم وعلمه الواسع و صبره على البلاء…الخ»
جب آپ فریضہ دعوت کی ادائیگی میں مشغول ہوتے تو کسی میں فرق روانہ رکھتے۔ یہ اللہ پر آپ کی ایمانی قوت، وسیع تر علم اور مشقتوں پر خصوصی صبر کا کرشمہ تھا۔
شیخ رحمہ اللہ نے الجامعۃ الاسلامیۃ (مدینہ منورہ یونیورسٹی) میں علم حدیث کی تعلیم کا ایک منہج طرز تعلیم وضع کیا تھا جس میں علم الاسناد کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔ شیخ تیسرے سال کے طلباء کے لئے صحیح مسلم سے ایک حدیث منتخب فرماتے اور دوسرے سال کے آخر میں طلباء کے لئے سنن ابی داود سے ایک حدیث مع سند بورڈ پر لکھ دیتے تھے اور پھر کتب رجال، مثلاً الخلاصۃ اور التقریب وغیرہ لا کر ان احادیث کی تخریج اور نقد رجال کے طریقہ وغیرہ کی عملی پریکٹس کرواتے تھے۔ پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقط الجامعۃ الاسلامیۃ ہی میں نہیں بلکہ عالم عرب کی تمام اسلامی یونیورسٹیوں میں علم الاسناد کی تعلیم کی روایت پہلی بار شیخ ہی نے شروع کی تھی۔ جامعہ سے آپ کے رخصت ہو جانے کے بعد ڈاکٹر محمد امین مصری رحمہ الله (چیئرمین شعبہ حدیث) نے اس علمی روایت کو جامعہ میں جاری رکھا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ آپ کی جاری کردہ یہ سنت عالم اسلامی کی تمام جامعات میں رائج ہو گئی۔
الجامعۃ السلفیۃ (بنارس) میں آمد کی پیشکش سے شیخ کی معذرت
الجامعۃ الاسلامیۃ سے سبکدوشی کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس کے سر پرست مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ (صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح) نے شیخ رحمہ اللہ کو بنارس میں بحیثیت استاذِ حدیث تشریف لانے کی دعوت دی جسے شیخ رحمہ اللہ نے بوجوہ قبول نہ کیا اور معذرت کر لی۔
جب شیخ رحمہ اللہ الجامعۃ الاسلامیۃ سے فارغ ہو کر دمشق واپس پہنچے تو آپ نے گھڑیوں کی مرمت کرنے والی اپنی دوکان اپنے بھائی منیر رحمہ الله اور ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند عبداللطیف کو دیدی تھی اور اپنے آپ کو مکمل طور پر فارغ کر کے المکتبۃ الظاھریۃ میں قیمتی تالیفات اور نفع بخش مؤلفات کے لئے وقف کر دیا تھا۔


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.