انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: ”تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم»”اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے“۔
لا تسألوني اليوم عن شيء إلا بينته لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فإذا رجل كان إذا لاحى الرجال يدعى لغير أبيه فقال يا رسول الله من أبي قال حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا و بمحمد رسولا
من أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس فأكثر الناس البكاء وأكثر رسول الله أن يقول سلوني فقال أنس فقام إليه رجل فقال أين مدخلي يا رسول الله قال النار فقام عبد الله
لا تسألوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فأنشأ رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير أبيه فقال يا نبي الله من أبي فقال أبوك حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن
خرج حين زاغت الشمس فصلى لهم صلاة الظهر ذكر الساعة وذكر أن قبلها أمورا عظاما من أحب أن يسألني عن شيء فليسألني عنه فوالله لا تسألونني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس بن مالك فأكثر الناس البكاء حين سمعوا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 93
´شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے` «. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ . . .» ”. . . (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]
تشریح: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو زانو ہو کر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 93
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3056
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: ”تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم»”اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3056]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ عبداللہ بن حذافہ سہمی ہیں، سوال اس لیے کرنا پڑا کہ لوگ انہیں غیر باپ کی طرف منسوب کر رہے تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3056