حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان، حدثني مولى اسماء، عن ابن عمر، قال: سمعت عمر يذكر، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من لبس الحرير في الدنيا لم يلبسه في الآخرة "، وفي الباب، عن علي، وحذيفة، وانس، وغير واحد، وقد ذكرناه في كتاب اللباس، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قد روي من غير وجه، عن ابي عمر، ومولى اسماء بنت ابي بكر الصديق اسمه عبد الله ويكنى ابا عمرو، وقد روى عنه عطاء بن ابي رباح، وعمرو بن دينار.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ يَذْكُرُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَحُذَيْفَةَ، وَأَنَسٍ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ، وَقَدْ ذَكَرْنَاهُ فِي كِتَابِ اللِّبَاسِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، وَمَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ وَيُكْنَى أَبَا عَمْرٍو، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی الله عنہ کو یہ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دنیا میں «حریر»(ریشمی کپڑا) پہنا تو وہ اسے آخرت (یعنی جنت) میں نہ پہنے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے اسماء بنت ابی بکر کے آزاد کردہ غلام ابوعمرو سے مروی ہے۔ ان کا نام عبداللہ اور ان کی کنیت ابوعمرو ہے، ان سے عطاء بن ابی رباح اور عمرو بن دینار نے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی، حذیفہ، انس رضی الله عنہم اور دیگر کئی لوگوں سے بھی احادیث آئی ہیں، جن کا ذکر ہم کتاب اللباس میں کر چکے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 1 (2069) (تحفة الأشراف: 10542)، و مسند احمد (1/20، 26، 36، 39) (صحیح) (ھذا من مسند عمر رضی الله عنہ، وقد أخرجہ من مسند ابن عمر کل من: صحیح البخاری/الجمعة 7 (886، والعیدین 1 (938)، والھبة 27 (2612)، والجھاد 177 (3054)، واللباس 30 (5841)، والأدب 9 (5981)، و 66 (6081)، وصحیح مسلم/المصدر المذکور (2068)، و سنن ابی داود/ الصلاة 219 (1076)، واللباس 10 (4040)، سنن النسائی/الجمعة 11 (1383)، والزینة 83 (5161)، وسنن ابن ماجہ/اللباس 16 (3591)، وط/اللباس 8 (18)، و مسند احمد (2/20، 39، 49) (بذکر قصة)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3601
´مردوں کے لیے پیلے کپڑے پہننے کی کراہت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «مفدم» سے منع کیا ہے، یزید کہتے ہیں کہ میں نے حسن سے پوچھا: «مفدم» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جو کپڑا «کسم» میں رنگنے سے خوب پیلا ہو جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3601]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) معصفر کا مطلب ہے عصفر سے رنگا ہوا۔ وہ ایک زرد رنگ کی چیز ہے جس سے کپرے رنگے جاتےہیں۔ (محمد فواد عبدالباقی بحوالہ المنجد) لیکن انہوں نے (المفدم) کی تشریح یوں کی ہے: انتہائی سرخ۔ گویا وہ اتنا زیادہ سرخ ہے کہ مزید سرخ نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کسم کا پودا زرد ہونے کے باوجود اس سے رنگا ہوا کپڑا سرخ ہو جاتا ہو۔
(2) گہرے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا اگر ہلکے رنگ کا ہو تو مردوں کے لیے جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3601