الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3596
´گواہیوں کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں سب سے بہتر گواہ نہ بتاؤں؟ جو اپنی گواہی لے کر حاضر ہو“ یا فرمایا: ”اپنی گواہی پیش کرے قبل اس کے کہ اس سے پوچھا جائے ۱؎۔“ عبداللہ بن ابی بکر نے شک ظاہر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الذي يأتي بشهادته» فرمایا، یا «يخبر بشهادته» کے الفاظ فرمائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک کہتے ہیں: ایسا گواہ مراد ہے جو اپنی شہادت پیش کر دے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ کس کے حق میں مفید ہے اور کس کے حق میں غیر مفید۔ ہمدانی کی روایت میں ہے: اسے بادشاہ کے پاس لے جائے، اور ابن السرح کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3596]
فوائد ومسائل:
توضیح: صحیح بخاری ومسلم کی روایت میں آیا ہے۔
کہ (قرب قیامت میں) ایسے لوگ ہوں گے جوگواہیاں دیں گے۔
حالانکہ ان سے گواہی طلب نہ کی جائے گی۔
وہ قسمیں کھایئں گے حالانکہ ان سے قسمیں طلب نہ کی جایئں گی۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2652۔
و صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 2535) تو اس میں ان لوگوں کی مذمت ہے۔
جو جھوٹے ہوں۔
کسی کا حق مارنے یا کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانے کےلئے یہ قسمیں کھایئں گے۔
اور آگے بڑھ بڑھ کر گواہیاں دیں گے۔
جبکہ زیر بحث حدیث میں صادق اور امین لوگوں کومدح ہے۔
جو مجبور اور سادہ لوگوں کی مددکریں۔
یا حاکم اور قاضی کےلئے حق وانصاف میں معاون بنیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا تعلق اس امانت اور عاریت سے جوکسی یتیم کی ہو۔
اور سوائے اس گواہ کے کسی اور کے علم میں نہ ہو۔
اور وہ از خود حاکم کے پاس جا کر حقدار کا حق دلوادے تو یقینا وہ بہترین گواہ ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3596