اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کسی مرنے والے کافر رشتہ دار کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کافر اپنے مسلمان رشتہ دار کا وارث ہو گا، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2729
´مسلمان اور کافر و مشرک ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔` اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا، اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2729]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: کافر سے ہر غیر مسلم مراد ہے، خواہ وہ اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) ہو، کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہو، مثلاً: ہندو، سکھ، بدھ، دہریہ، قادیانی اور بہائی وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2729
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2107
´مسلمان اور کافر کے درمیان وراثت باطل ہونے کا بیان۔` اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2107]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ مسلمان کسی مرنے والے کافر رشتہ دار کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کافر اپنے مسلمان رشتہ دار کا وارث ہوگا، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2107
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، نحوه، قال ابو عيسى: وفي الباب عن جابر، وعبد الله بن عمرو، وهذا حديث حسن صحيح، هكذا رواه معمر، وغير واحد، عن الزهري، نحو هذا، وروى مالك، عن الزهري، عن علي بن حسين، عن عمر بن عثمان، عن اسامة بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وحديث مالك وهم، وهم فيه مالك، وقد رواه بعضهم عن مالك، فقال: عن عمرو بن عثمان، واكثر اصحاب مالك، قالوا: عن مالك، عن عمر بن عثمان، ولد عثمان، ولا يعرف عمر بن عثمان، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم، واختلف بعض اهل العلم في ميراث المرتد فجعل اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وغيرهم المال لورثته من المسلمين، وقال بعضهم: لا يرثه ورثته من المسلمين، واحتجوا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم: " لا يرث المسلم الكافر " وهو قول الشافعي.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَاهُ مَعْمَرٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَحَدِيثُ مَالِكٍ وَهْمٌ، وَهِمَ فِيهِ مَالِكٌ، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ مَالِكٍ، فَقَالَ: عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ مَالِكٍ، قَالُوا: عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ، وَلَدِ عُثْمَانَ، وَلَا يُعْرَفُ عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَاخْتَلَفَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مِيرَاثِ الْمُرْتَدِّ فَجَعَلَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمُ الْمَالَ لِوَرَثَتِهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَرِثُهُ وَرَثَتُهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ " وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
اس سند سے بھی اسامہ رضی الله عنہ سے ایسی ہی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- معمر اور کئی لوگوں نے زہری سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مالک نے اسے «عن الزهري عن علي بن حسين عن عمر بن عثمان عن أسامة بن زيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مالک کی روایت میں وہم ہے اور یہ وہم مالک سے سرزد ہوا ہے، بعض لوگوں نے اس حدیث کی مالک سے روایت کرتے ہوئے «عن عمرو بن عثمان» کہا ہے، جب کہ مالک کے اکثر شاگردوں نے «مالك عن عمر بن عثمان» کہا ہے، ۳- اور عمرو بن عثمان بن عفان مشہور ہیں، عثمان کے لڑکوں میں سے ہیں اور عمر بن عثمان معروف آدمی نہیں ہیں، ۴- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، ۶- بعض اہل علم نے مرتد کی میراث کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اس کا مال اس کے مسلمان وارثوں کا ہو گا، ۷- بعض لوگوں نے کہا ہے: اس کے مسلمان وارث اس کے مال کا وارث نہیں ہوں گے، ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کی اسی حدیث) «لا يرث المسلم الكافر» یعنی ”مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا ہے“ سے استدلال کیا ہے شافعی کا یہی قول ہے۔