حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، قال: وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " اتي بلبن قد شيب بماء، وعن يمينه اعرابي، وعن يساره ابو بكر، فشرب، ثم اعطى الاعرابي، وقال: الايمن فالايمن "، قال: وفي الباب عن ابن عباس، وسهل بن سعد، وابن عمر، وعبد الله بن بسر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، قَالَ: وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أُتِيَ بِلَبَنٍ قَدْ شِيبَ بِمَاءٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَشَرِبَ، ثُمَّ أَعْطَى الْأَعْرَابِيَّ، وَقَالَ: الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا جس میں پانی ملا ہوا تھا، آپ کے دائیں طرف ایک اعرابی تھا اور بائیں ابوبکر رضی الله عنہ، آپ نے دودھ پیا، پھر (بچا ہوا دودھ) اعرابی کو دیا اور فرمایا: ”دائیں طرف والا زیادہ مستحق ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، سہل بن سعد، ابن عمر اور عبداللہ بن بسر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأشربة 14 (5613)، و 18 (5719) والشرب 1 (2352)، والہبة 4 (2571)، صحیح مسلم/الأشربة 17 (2029)، سنن ابی داود/ الأشربة 19 (3726)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 22 (3425)، (تحفة الأشراف: 1574)، و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ 9 (17)، و مسند احمد (3/110، 113، 197)، سنن الدارمی/الأشربة 18 (2162) (صحیح)»
حلبت لرسول الله شاة داجن وهي في دار أنس بن مالك وشيب لبنها بماء من البئر التي في دار أنس فأعطى رسول الله القدح فشرب منه حتى إذا نزع القدح من فيه وعلى يساره أبو بكر وعن يمينه أعرابي فقال عمر وخاف أن يعطيه الأعراب
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 471
´دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه اعرابي وعن يساره ابو بكر الصديق، فشرب ثم اعطى الاعرابي وقال: ”الايمن فالايمن.“» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں (کنویں کا) پانی ملایا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک اعرابی (دیہاتی) اور بائیں طرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دودھ) پیا پھر (باقی دودھ) اعرابی کو دے دیا اور فرمایا: ”دایاں (مقدم ہے) پھر (جو اس کے بعد) دایاں ہو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 471]
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 926/2 ح 787، ك 49 ح 17، التمهيد 151/6، الاستذكار: 1720، أخرجه البخاري 5619، ومسلم 2029، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ اپنے پینے کے لئے دودھ میں پانی ڈالنا جائز ہے لیکن اسے خالص دودھ کے نام پر بیچنا جائز نہیں ہے۔ ➋ دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے۔ ➌ کھانے پینے کی چیزیں اگر دوسروں کو تحفتاً دی جائیں تو دائیں طرف سے ابتدأ کرنا چاہئے۔ ➍ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔ ➎ دودھ پینا مسنون اور صحت و توانائی کے لئے بہترین غذا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 3
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3726
´جو شخص قوم کا ساقی ہو وہ کب پئے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا، آپ کے دائیں ایک دیہاتی اور بائیں ابوبکر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا پھر دیہاتی کو (پیالہ) دے دیا اور فرمایا: ”دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے پھر وہ جو اس کے دائیں ہو ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3726]
فوائد ومسائل: فائدہ: ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ ساقی خود آخر میں پیے۔ اور جسے مجلس میں دودھ وغیرہ پیش کیا جائے۔ وہ اوروں کی طرف بڑھائے۔ تو دایئں والے کو دے اور پھر اسی طرح آگے پیش کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3726