حدثنا ابو كريب، حدثنا المحاربي، عن شعبة، عن حصين، عن هلال بن يساف، عن سويد بن مقرن المزني، قال: " لقد رايتنا سبعة إخوة ما لنا خادم إلا واحدة، فلطمها احدنا، فامرنا النبي صلى الله عليه وسلم ان نعتقها " قال: وفي الباب، عن ابن عمر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى غير واحد هذا الحديث، عن حصين بن عبد الرحمن، فذكر بعضهم في الحديث قال: " لطمها على وجهها ".حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: " لَقَدْ رَأَيْتُنَا سَبْعَةَ إِخْوَةٍ مَا لَنَا خَادِمٌ إِلَّا وَاحِدَةٌ، فَلَطَمَهَا أَحَدُنَا، فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُعْتِقَهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ: " لَطَمَهَا عَلَى وَجْهِهَا ".
سوید بن مقرن مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صورت حال یہ تھی کہ ہم سات بھائی تھے، ہمارے پاس ایک ہی خادمہ تھی، ہم میں سے کسی نے اس کو طمانچہ مار دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اس کو آزاد کر دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے حصین بن عبدالرحمٰن سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ سوید بن مقرن مزنی نے «لطمها على وجهها» کہا یعنی ”اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا“۔ ۳- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأیمان 8 (1658)، سنن ابی داود/ الأدب 133 (5166)، (تحفة الأشراف: 4811)، و مسند احمد (3/448)، و (5/444) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5166
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔` ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ کے گھر اترے، ہمارے ساتھ ایک تیز مزاج بوڑھا تھا اور اس کے ساتھ اس کی ایک لونڈی تھی، اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا تو میں نے سوید کو جتنا سخت غصہ ہوتے ہوئے دیکھا اتنا کبھی نہیں دیکھا تھا، انہوں نے کہا: تیرے پاس اسے آزاد کر دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، تو نے ہمیں دیکھا ہے کہ ہم مقرن کے سات بیٹوں میں سے ساتویں ہیں، ہمارے پاس صرف ایک خادم تھا، سب سے چھوٹے بھائی نے (ایک بار) اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے آزاد کر دینے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5166]
فوائد ومسائل: چہرے پرمارنا سخت منع ہے۔ اور رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ (إذا قَاتَلَ أحدُكُم أخاه فليجتنبِ الوجهَ)(صحيح مسلم، البر والصلة، حديث: 2612) جب تم سے کسی کی اپنے (مسلمان) بھائی کے ساتھ لڑائی ہوجائے تو چاہیے کہ اس کے چہرے (پرمارنے) سے بچے۔ حتیٰ کہ حیوان کے چہرے پر بھی نہین مارنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5166