حدثنا قتيبة , حدثنا الليث , عن يزيد بن ابي حبيب , عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطاه غنما يقسمها على اصحابه ضحايا , فبقي عتود , او جدي , فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ضح به انت " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , قال وكيع , الجذع من الضان: يكون ابن سنة او سبعة اشهر , وقد روي من غير هذا الوجه , عن عقبة بن عامر , انه قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحايا , فبقي جذعة , فسالت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " ضح بها انت "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى أَصْحَابِهِ ضَحَايَا , فَبَقِيَ عَتُودٌ , أَوْ جَدْيٌ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ضَحِّ بِهِ أَنْتَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , قَالَ وَكِيعٌ , الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ: يَكُونُ ابْنَ سَنَةٍ أَوْ سَبْعَةِ أَشْهُرٍ , وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , أَنَّهُ قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا , فَبَقِيَ جَذَعَةٌ , فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " ضَحِّ بِهَا أَنْتَ "،
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود»(بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي»۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اس کی قربانی خود کر لو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- وکیع کہتے ہیں: بھیڑ کا جذع، چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔ ۳- عقبہ بن عامر سے دوسری سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور تقسیم کیے، ایک جذعہ باقی بچ گیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”تم اس کی قربانی خود کر لو“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3138
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟` عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کر دیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قربانی تم کر لو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3138]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حدیث میں عتود کا لفظ ہےجس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے: جو بچہ خود چرنے چگنے کے قابل ہوجائےاور ماں کا محتاج نہ رہے۔
(2) نواب حیدالزمان رحمۃ اللہ علیہ نے عتود کے معنی ایک سال کا بکری کا بچہ کیے ہیں۔ (ترجمہ حدیث زیر مطالعہ) ہم نے اپنے ترجمہ کو اسی کو اختیار کیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3138
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1500
´بھیڑ کے جذع کی قربانی کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود»(بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي»۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اس کی قربانی خود کر لو۔“[سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1500]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: راوی کو شک ہوگیا ہے کہ ”عتود“ کہا یا ”جدی“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1500