حدثنا بذلك الحسن بن علي الخلال , حدثنا عبد الرزاق , انبانا معمر , عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله , ان رجلا من اسلم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاعترف بالزنا , فاعرض عنه , ثم اعترف , فاعرض عنه , حتى شهد على نفسه اربع شهادات , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ابك جنون؟ " , قال: لا , قال: " احصنت " , قال: نعم , قال: فامر به , فرجم بالمصلى , فلما اذلقته الحجارة , فر فادرك فرجم حتى مات , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم " خيرا " , ولم يصل عليه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم: ان المعترف بالزنا إذا اقر على نفسه اربع مرات , اقيم عليه الحد , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم: إذا اقر على نفسه مرة , اقيم عليه الحد , وهو قول مالك بن انس , والشافعي , وحجة من قال هذا القول , حديث ابي هريرة , وزيد بن خالد , ان رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال احدهما: يا رسول الله , إن ابني زنى بامراة , هذا الحديث بطوله , وقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اغد يا انيس على امراة هذا , فإن اعترفت فارجمها " , ولم يقل فإن اعترفت اربع مرات.حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا , فَأَعْرَضَ عَنْهُ , ثُمَّ اعْتَرَفَ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ , حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبِكَ جُنُونٌ؟ " , قَالَ: لَا , قَالَ: " أَحْصَنْتَ " , قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ , فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى , فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ , فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " خَيْرًا " , وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْمُعْتَرِفَ بِالزِّنَا إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ , أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ مَرَّةً , أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ , وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ , حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ ابْنِي زَنَى بِامْرَأَةِ , هَذَا الْحَدِيثُ بِطُولِهِ , وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا , فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا " , وَلَمْ يَقُلْ فَإِنِ اعْتَرَفَتْ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پاگل ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں: پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کر دیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ زنا کا اقرار کرنے والا جب اپنے اوپر چار مرتبہ گواہی دے تو اس پر حد قائم کی جائے گی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک مرتبہ بھی کوئی زنا کا اقرار کر لے گا تو اس پر حد قائم کر دی جائے گی، یہ مالک بن انس اور شافعی کا قول ہے، اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ رضی الله عنہ اور زید بن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنا قضیہ لے گئے، ایک نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا، یہ ایک لمبی حدیث ہے، (آخر میں ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انیس! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو“، آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ ”جب چار مرتبہ اقرار کرے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھر اسے رجم کیا گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: «أتصلي عليها وقد زنت؟» کیا اس زانیہ عورت کی نماز جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تو وہ ان سب کے لیے کافی ہو گی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئیے: كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم ۱۴۳۵۔
۲؎: اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی و ذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہو بصورت دیگر حد جاری کرنے کے لیے صرف ایک اقرار کافی ہے، پوری حدیث «باب الرجم علی الثیب» کے تحت آگے آ رہی ہے۔
اعترف بالزنا فأعرض عنه النبي حتى شهد على نفسه أربع مرات قال له النبي أبك جنون قال لا قال آحصنت قال نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له النبي خير
إنا لما خرجنا به فرجمناه فوجد مس الحجارة صرخ بنا يا قوم ردوني إلى رسول الله فإن قومي قتلوني وغروني من نفسي وأخبروني أن رسول الله غير قاتلي فلم ننزع عنه حتى قتلناه فلما رجعنا إلى رسول الله وأخبرناه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1429
´مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو اس سے حد ساقط کرنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پاگل ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں: پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کر دیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1429]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیا گیا، اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”أَتُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟“ کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: «لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَة لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِيْنَ لَوَسعَتْهُم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئے: كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم 1435۔
2؎: اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے، پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1429
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4420
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔` محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں: مجھے قبیلہ اسلم کے کچھ لوگوں نے جو تمہیں محبوب ہیں اور جنہیں میں متہم نہیں قرار دیتا بتایا ہے کہ «فهلا تركتموه» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے، حسن کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث سمجھی نہ تھی، تو میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے کہا کہ قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے پتھر پڑنے سے ماعز کی گھبراہٹ کا جب رسول الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4420]
فوائد ومسائل: احادیث رسول میں کسی ایک متن کولے کرحکم لگانے سے پیشتر اس کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور طلبہ حدیث کو اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4420