زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ
(گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
”سال بھر اس کی پہچان کراؤ
۱؎، اگر کوئی پہچان بتا دے تو اسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اور سربند کو پہچان لو، پھر اسے کھا جاؤ۔ پھر جب اس کا مالک آئے تو اسے ادا کر دو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے،
۳- یہ ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں، جب ایک سال تک اس کا اعلان ہو جائے اور کوئی پہچاننے والا نہ ملے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہٰ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کر دے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔ اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
۶- لقطہٰ اٹھانے والا جب مالدار ہو تو یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں،
۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مالدار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اور بہت مالدار تھے، پھر بھی نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا۔
(دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہٰ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے تو علی رضی الله عنہ کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی رضی الله عنہ کو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دینار ملا، انہوں نے
(سال بھر تک) اس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا تو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالانکہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا،
۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہٰ معمولی ہو تو لقطہٰ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کا پہچان کروانا ضروری نہیں
۲؎،
۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینار سے کم ہو تو وہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے،
۱۰- اس باب میں ابی بن کعب، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
● صحيح البخاري | 2428 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة |
● صحيح البخاري | 91 | زيد بن خالد | اعرف وكاءها أو قال وعاءها وعفاصها ثم عرفها سنة ثم استمتع بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الإبل فغضب حتى احمرت وجنتاه أو قال احمر وجهه فقال وما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وترعى الشجر فذرها حتى يلقاها ربها |
● صحيح البخاري | 6112 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إلي ضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه |
● صحيح البخاري | 2372 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها |
● صحيح البخاري | 2427 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم احفظ عفاصها ووكاءها فإن جاء أحد يخبرك بها وإلا فاستنفقها ضالة الغنم قال لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فتمعر وجه النبي فقال ما لك ولها معها حذاؤها وسقاؤها ترد الماء وتأكل الشجر |
● صحيح البخاري | 2429 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها |
● صحيح البخاري | 2438 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن جاء أحد يخبرك بعفاصها ووكائها وإلا فاستنفق بها ضالة الإبل فتمعر وجهه وقال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر دعها حتى يجدها ربها ضالة الغنم فقال هي لك أو لأخيك أو للذئب |
● صحيح البخاري | 5292 | زيد بن خالد | ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فغضب واحمرت وجنتاه وقال ما لك ولها معها الحذاء والسقاء تشرب الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها اللقطة فقال اعرف وكاءها وعفاصها وعرفها سنة فإن جاء من يعرفها وإلا فاخلطها |
● صحيح البخاري | 2436 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه فضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله |
● صحيح مسلم | 4504 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن لم تعترف فاعرف عفاصها ووكاءها ثم كلها فإن جاء صاحبها فأدها إليه |
● صحيح مسلم | 4498 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها |
● صحيح مسلم | 4502 | زيد بن خالد | اعرف وكاءها وعفاصها ثم عرفها سنة فإن لم تعرف فاستنفقها ولتكن وديعة عندك فإن جاء طالبها يوما من الدهر فأدها إليه ضالة الإبل قال ما لك ولها دعها فإن معها حذاءها وسقاءها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يجدها ربها الشاة قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب |
● صحيح مسلم | 4499 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله |
● جامع الترمذي | 1372 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها ووعاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئ فضالة الإبل قال فغضب النبي حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه |
● جامع الترمذي | 1373 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن اعترفت فأدها وإلا فاعرف وعاءها وعفاصها ووكاءها وعددها ثم كلها فإذا جاء صاحبها فأدها |
● سنن أبي داود | 1704 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ا ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فغضب رسول الله حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه وقال ما لك ولها |
● سنن أبي داود | 1706 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن جاء باغيها فأدها إليه وإلا فاعرف عفاصها ووكاءها ثم كلها فإن جاء باغيها فأدها إليه |
● سنن ابن ماجه | 2507 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن اعترفت فأدها فإن لم تعرف فاعرف عفاصها ووعاءها ثم كلها فإن جاء صاحبها فأدها إليه |
● سنن ابن ماجه | 2504 | زيد بن خالد | عن ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب وسئل عن اللقطة فقال اعرف عفاصها ووكاءها وعرفها سنة فإن اعترفت وإلا فاخلطها بمالك |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 527 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها |
● بلوغ المرام | 800 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها |
● مسندالحميدي | 835 | زيد بن خالد | أعرف عفاصها ووعاءها ثم عرفها سنة، فإن اعترفت وإلا فاخلطها بمالك |
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1373
´گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”سال بھر اس کی پہچان کراؤ ۱؎، اگر کوئی پہچان بتا دے تو اسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اور سربند کو پہچان لو، پھر اسے کھا جاؤ۔ پھر جب اس کا مالک آئے تو اسے ادا کر دو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1373]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کا ذکرہے اورباب کی آخری حدیث میں تین سال کا ذکرہے،
یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے،
یا ایک سال بطور وجوب اورتین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قراردیا جائے،
پہچان کرانے کی صورت یہ ہوگی کہ بازار اوراجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیا جائے کہ گم شدہ چیز کی نشانی بتا کر حاصل کی جا سکتی ہے،
اگرکوئی اس کی نشانی بتا دے تومزید شناخت اورگواہوں کی ضرورت نہیں بلاتأمل وہ چیز اس کے حوالے کردی جائے۔
2؎:
اس کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
«إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها» ۔
(یعنی:
میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتاہے،
اس کو کھا لینا چاہتا ہوں،
پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو،
تو اسے پھینک دیتا ہوں) اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1373
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1372
´گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سر بند، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھر اسے خرچ کر لو اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اُسے ادا کر دو“، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑ کر باندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے۔“ اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1372]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اورمشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور باربارپانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا،
اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کا خوف نہیں وہ خود اپنا دفاع کرلیتا ہے اس لیے اسے پکڑکرباندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1372