سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان
۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی؟ کہا: سبحان اللہ! ہاں، سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا۔ وہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو برائی کرتے دیکھے تو کیا کرے؟ اگر کچھ کہتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے، اور اگر خاموش رہتا ہے تو وہ سنگین معاملہ پر خاموش رہتا ہے۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب کچھ دن گزرے تو وہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
(دوبارہ) آیا اور اس نے عرض کیا: میں نے آپ سے جو مسئلہ پوچھا تھا میں اس میں خود مبتلا کر دیا گیا ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں
«والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» ”یعنی جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگاتے ہیں اور ان کے پاس خود اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہیں
“ (سورۃ النور: 6)۔ یہاں تک کہ یہ آیتیں ختم کیں، پھر آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں، اور اسے نصیحت کی اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے اس پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے۔ پھر آپ نے وہ آیتیں عورت کے سامنے دہرائیں، اس کو نصیحت کی، اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، وہ سچ نہیں بول رہا ہے۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے مرد سے ابتداء کی، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ گواہی دی کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوبارہ آپ نے عورت سے یہی باتیں کہلوائیں، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں مرتبہ اس نے گواہی دی کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں میں تفریق کر دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سہل بن سعد، ابن عباس، ابن مسعود اور حذیفہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔
● صحيح البخاري | 5306 | عبد الله بن عمر | أحلفهما النبي فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5349 | عبد الله بن عمر | يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5313 | عبد الله بن عمر | فرق بين رجل وامرأة قذفها وأحلفهما |
● صحيح البخاري | 4748 | عبد الله بن عمر | تلاعنا كما قال الله قضى بالولد للمرأة فرق بين المتلاعنين |
● صحيح البخاري | 6748 | عبد الله بن عمر | رجلا لاعن امرأته في زمن النبي انتفى من ولدها فرق النبي بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● صحيح البخاري | 5311 | عبد الله بن عمر | يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا وقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5314 | عبد الله بن عمر | لاعن النبي بين رجل وامرأة من الأنصار فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5315 | عبد الله بن عمر | لاعن بين رجل وامرأته انتفى من ولدها فرق بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● صحيح البخاري | 5312 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها قال مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك |
● صحيح مسلم | 3752 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بينهما ألحق الولد بأمه قال نعم |
● صحيح مسلم | 3746 | عبد الله بن عمر | تلاهن عليه ووعظه وذكره وأخبره أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة قال لا والذي بعثك بالحق ما كذبت عليها ثم دعاها فوعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة قالت لا والذي بعثك بالحق إنه لكاذب فبدأ بالرجل فشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الص |
● صحيح مسلم | 3753 | عبد الله بن عمر | لاعن رسول الله بين رجل من الأنصار وامرأته فرق بينهما |
● صحيح مسلم | 3751 | عبد الله بن عمر | فرق نبي الله بين أخوي بني العجلان |
● صحيح مسلم | 3749 | عبد الله بن عمر | الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب |
● صحيح مسلم | 3748 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها قال يا رسول الله مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك منها |
● جامع الترمذي | 1202 | عبد الله بن عمر | لو أن أحدنا رأى امرأته على فاحشة كيف يصنع إن تكلم تكلم بأمر عظيم وإن سكت سكت على أمر عظيم قال فسكت النبي فلم يجبه فلما كان بعد ذلك أتى النبي فقال إن الذي سألتك عنه قد ابتليت به فأنزل الله هذه الآيات التي في سورة النور |
● جامع الترمذي | 1203 | عبد الله بن عمر | فرق النبي بينهما ألحق الولد بالأم |
● جامع الترمذي | 3178 | عبد الله بن عمر | ووعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة فقالت لا والذي بعثك بالحق ما صدق فبدأ بالرجل فشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين والخامسة أن لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين ثم ثنى بالمرأة فشهدت أربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين والخامسة أن |
● سنن أبي داود | 2259 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● سنن أبي داود | 2257 | عبد الله بن عمر | لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذلك أبعد لك |
● سنن أبي داود | 2258 | عبد الله بن عمر | الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب يرددها ثلاث مرات فأبيا فرق بينهما |
● سنن النسائى الصغرى | 3507 | عبد الله بن عمر | لاعن رسول الله بين رجل وامرأته فرق بينهما وألحق الولد بالأم |
● سنن النسائى الصغرى | 3506 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله أحدكما كاذب ولا سبيل لك عليها قال يا رسول الله مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك |
● سنن النسائى الصغرى | 3505 | عبد الله بن عمر | الله يعلم إن أحدكما كاذب فهل منكما تائب قال لهما ثلاثا فأبيا فرق بينهما |
● سنن النسائى الصغرى | 3504 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بين أخوي بني العجلان |
● سنن النسائى الصغرى | 3503 | عبد الله بن عمر | الذي سألتك ابتليت به فأنزل الله هؤلاء الآيات في |
● سنن ابن ماجه | 2069 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 371 | عبد الله بن عمر | وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما والحق الولد بالمراة |
● بلوغ المرام | 937 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله ، أحدكما كاذب ، لا سبيل لك عليها |
● مسندالحميدي | 687 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله، أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها |
● مسندالحميدي | 688 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أخوي بني عجلان |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 371
´لعان کا بیان`
«. . . 232- وبه: أن رجلا لاعن امرأته فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 371]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5315، ومسلم 8/1494، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لعان کیلئے دیکھئے: حدیث سابق: 6
➋ لعان شدہ عورت کے بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہوتی ہے۔ اس بچے کو اس عورت کے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا لہٰذا یہ بچہ لعان والے باپ کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا اور نہ اس کا ”باپ“ اس کا وارث ہوتا ہے بلکہ اس کی ماں عصبہ ہوتی ہے۔
➌ صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی لہٰذا جدائی کا سبب طلاق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے لیکن یہ قول محل نظر ہے۔
➍ جو شخص اپنی بیوی سے لعان کر تا ہے اور اس پر زنا کی تہمت لگا تا ہے تو اس شخص پر حد قذف نہیں لگتی۔
➎ قول راجح میں زنا کا عینی گواہ قاذف کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ چار کا نصاب بھی پورا نہ ہو۔
➏ حاکم پر لازم ہے کہ شرعی احکامات طاقت سے نافذ کرے۔
➐ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور لعان نہ کرے تو اسے (شوہر کو) کوڑے لگیں گے۔ دیکھئے: [التمهيد 15/38 بحواله ابن ابي شيبه عن الشعبي وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 232
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2069
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2069]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لعان سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد یہ مرد اس عورت سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔
(2)
لعان کی صورت میں عورت کا خاوند بچے کا باپ نہیں کہلائے گا۔
بچہ اس مرد کا وارث بھی نہیں ہوگا، البتہ عورت کےماں ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لیے وہ اپنی ماں اور ننھیالی رشتے داروں کا وارث ہوگا اور وہ اس کے وارث ہوں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2069
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1202
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1202]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لعان کا حکم آیت کریمہ ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء﴾ (النور: 6) میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچا ہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو،
اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1202
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2257
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: ”تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں“، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2257]
فوائد ومسائل:
لعان کی صورت میں شوہرکوحق سے کچھ نہیں ملے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2257