وحدثنا محمد بن بشار بندار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن يحيى بن ابي كثير، حدثنا ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله، ان عمر بن الخطاب، قال يوم الخندق، وجعل يسب كفار قريش، قال: يا رسول الله ما كدت اصلي العصر حتى تغرب الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والله إن صليتها " , قال: فنزلنا بطحان، فتوضا رسول الله صلى الله عليه وسلم وتوضانا، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العصر بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، وَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَاللَّهِ إِنْ صَلَّيْتُهَا " , قَالَ: فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَوَضَّأْنَا، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے خندق کے روز کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ اللہ کے رسول! میں عصر نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہو گیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں نے اسے (اب بھی) نہیں پڑھی ہے“، وہ کہتے ہیں: پھر ہم وادی بطحان میں اترے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سورج ڈوب جانے کے بعد پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔
وضاحت: ۱؎: عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث میں مذکور واقعہ ابن مسعود والے واقعہ کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے، یہاں صرف عصر کی قضاء کا واقعہ ہے اور وہاں ظہر سے لے کر مغرب تک کی قضاء پھر عشاء کے وقت میں سب کی قضاء کا واقعہ ہے جو دوسرے دن کا ہے، غزوہ خندق کئی دن تک ہوئی تھی۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 180
´کئی وقت کی نماز چھوٹ جائے تو آدمی پہلے کون سی پڑھے؟` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے خندق کے روز کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ اللہ کے رسول! میں عصر نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہو گیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں نے اسے (اب بھی) نہیں پڑھی ہے“، وہ کہتے ہیں: پھر ہم وادی بطحان میں اترے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سورج ڈوب جانے کے بعد پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 180]
اردو حاشہ: 1؎: عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں مذکور واقعہ ابن مسعود والے واقعہ کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے، یہاں صرف عصر کی قضا کا واقعہ ہے اور وہاں ظہر سے لے کر مغرب تک کی قضاء پھر عشاء کے وقت میں سب کی قضاء کا واقعہ ہے جو دوسرے دن کا ہے، غزوہ خندق کئی دن تک ہوئی تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 180