وحدثنا احمد بن منيع , وعلي بن حجر , قالا: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن ابي ريحانة، عن سفينة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يتوضا بالمد ويغتسل بالصاع ". قال: وفي الباب عن عائشة , وجابر , وانس بن مالك. قال ابو عيسى: حديث سفينة، حسن صحيح، وابو ريحانة اسمه: عبد الله بن مطر، وهكذا راى بعض اهل العلم: الوضوء بالمد والغسل بالصاع , وقال الشافعي , واحمد , وإسحاق: ليس معنى هذا الحديث على التوقي انه لا يجوز اكثر منه ولا اقل منه وهو قدر ما يكفي.وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , وَعَليُّ بْنُ حُجْرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ، عَنْ سَفِينَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَجَابِرٍ , وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَفِينَةَ، حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو رَيْحَانَةَ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَطَرٍ، وَهَكَذَا رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْوُضُوءَ بِالْمُدِّ وَالْغُسْلَ بِالصَّاعِ , وقَالَ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: لَيْسَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عَلَى التَّوَقِّي أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَكْثَرُ مِنْهُ وَلَا أَقَلُّ مِنْهُ وَهُوَ قَدْرُ مَا يَكْفِي.
سفینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سفینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، جابر اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ ایک مد پانی سے وضو کیا جائے اور ایک صاع پانی سے غسل، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصود تحدید نہیں ہے کہ اس سے زیادہ یا کم جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مقدار ایسی ہے جو کافی ہوتی ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔
۲؎: مسلم میں ایک «فرق» پانی سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے، «فرق» ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتا تھا، ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک «فرق» پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے، یہ سب آدمی کے مختلف حالات اور مختلف آدمیوں کے جسموں پر منحصر ہے، ایک ہی آدمی جاڑا اور گرمی، یا بدن کی زیادہ یا کم گندگی کے سبب کم و بیش پانی استعمال کرتا ہے، نیز بعض آدمیوں کے بدن موٹے اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں کے ناٹے اور دبلے پتلے ہوتے ہیں، اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے، بہرحال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث267
´وضو اور غسل جنابت کے پانی کی مقدار کا بیان۔` سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے، اور ایک صاع پانی سے غسل ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 267]
اردو حاشہ: (1) صاع پیمائش کا ایک پیمانہ ہے جس کی مقدار 5 رطل اور تہائی رطل ہے۔ کلو گرام کے حساب سے اس کی مقدار دوکلو سو گرام اور بعض کے نزدیک ڈھائی کلو ہے۔ (مد) صاع کے چوتھائی کو کہتے ہیں اس کی مقدار پانچ سو پچیس گرام ہے۔ مائعات کے لیے صاع تقریباً دو لیٹر سے کچھ زائد اور مد اس سے چوتھائی سمجھا جاسکتا ہے۔
(2) ۔ غسل اور وضو کے لیے یہ مقدار ذکر کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ اس سے کم یا زیادہ پانی استعمال کرنا جائز نہیں۔ مقصد محض ایک اندازہ بیان کرنا ہے۔ تاکہ بلاوجہ بہت پانی ضائع نہ کیا جائےبلکہ تھوڑے پانی کو اس طریقے سے استعمال کیا جائےکہ پوری طرح صفائی حاصل ہوجائے، البتہ صدقہ فطر وغیرہ میں صاع سے کم مقدار میں غلہ ادا کرنا درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 267
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 56
´ایک مد پانی سے وضو کرنے کا بیان۔` سفینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 56]
اردو حاشہ: 1؎: مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔
2؎: مسلم میں ایک ”فرق“ پانی سے نبی اکرم ﷺ کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے، فرق ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتا تھا، ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور نبی اکرم ﷺ دونوں ایک فرق پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے، یہ سب آدمی کے مختلف حالات اور مختلف آدمیوں کے جسموں پر منحصر ہے، ایک ہی آدمی جاڑا اور گرمی، یا بدن کی زیادہ یا کم گندگی کے سبب کم و بیش پانی استعمال کرتا ہے، نیز بعض آدمیوں کے بدن موٹے اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں کے ناٹے اور دبلے پتلے ہوتے ہیں، اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے، بہر حال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 56