اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، عن شعبة، عن هشام بن زيد، قال: دخلت مع انس على الحكم يعني ابن ايوب، فإذا اناس يرمون دجاجة في دار الامير، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تصبر البهائم". أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَنَسٍ عَلَى الْحَكَمِ يَعْنِي ابْنَ أَيُّوبَ، فَإِذَا أُنَاسٌ يَرْمُونَ دَجَاجَةً فِي دَارِ الْأَمِيرِ، فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُصْبَرَ الْبَهَائِمُ".
ہشام بن زید کہتے ہیں کہ میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم (حکم بن ایوب) کے یہاں گیا تو دیکھا کہ چند لوگ امیر کے گھر میں ایک مرغی کو نشانہ بنا کر مار رہے ہیں، تو انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ جانوروں کو باندھ کر اس طرح مارا جائے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4444
´ «مجثمہ»(جس جانور کو باندھ کر نشانہ لگا کر مارنے اور اس کو کھانے) کی حرمت کا بیان۔` ہشام بن زید کہتے ہیں کہ میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم (حکم بن ایوب) کے یہاں گیا تو دیکھا کہ چند لوگ امیر کے گھر میں ایک مرغی کو نشانہ بنا کر مار رہے ہیں، تو انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ جانوروں کو باندھ کر اس طرح مارا جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4444]
اردو حاشہ: (1) معلوم ہوا کسی بھی جاندار کو (جیسا کہ حدیث: 4446 وغیرہ میں آ رہا ہے) خواہ وہ انسان ہو، یا حیوان اور پرندہ یا درندہ وغیرہ اس کو بلا وجہ عذاب اور تکلیف دینا حرام ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضروری ہے۔ اس میں کسی ملامت گر کی ملامت یا کسی صاحب اقتدار و اختیار شخص کا خوف نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا۔ انہوں نے حجاج بن یوسف کے چچیرے بھائی، اس کے نائب اور حاکم بصرہ حکم بن ایوب جیسے ظالم اور سفاک حکمران کے سامنے یہ فریضہ، کما حقہٗ ادا فرمایا۔ حکم بن ایوب کے متعلق معروف ہے کہ وہ بھی ظلم و جور میں اپنے چچا زاد حجاج بن یوسف کی طرح تھا۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4444
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3186
´جانور کو باندھ کر نشانہ لگانے اور مثلہ کرنے سے ممانعت کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر نشانہ لگانے سے منع فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3186]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جانوروں کو بلاوجہ ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے جو ایک مسلمان کی رحم دلی کے منافی ہے۔
(2) ذبح کرنے کے بجائے قتل کرنے سے جانور مردار میں شامل ہوجاتا ہے جو غذا کو ضائع کرنے کا ایک برا طریقہ ہے۔ اور غذا کو ضائع کرنا گناہ ہے۔
(3) تیر اندازی کی مشق کے نتیجے میں اس جانور کی کھال بھی ناقابل استعمال ہوجاتی ہے۔ یہ بھی مال کو ضائع کرنا ہے، جو بہت بڑا گناہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3186
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2816
´مسافر کے قربانی کرنے کا بیان۔` ہشام بن زید کہتے ہیں کہ میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم بن ایوب کے پاس گیا، تو وہاں چند نوجوانوں یا لڑکوں کو دیکھا کہ وہ سب ایک مرغی کو باندھ کر اسے تیر کا نشانہ بنا رہے ہیں تو انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2816]
فوائد ومسائل: یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے کےلئے سفر کوئی عذر نہیں ہے۔ اور مقیم ہونا کوئی شرط نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2816