عرفجہ بن شریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، (آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے پھر فرمایا) تو تم جسے دیکھو کہ وہ امت محمدیہ میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کر رہا ہے جب کہ وہ متفق و متحد ہیں تو اسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی بھی ہو“۔
سيكون بعدي هنات وهنات فمن رأيتموه فارق الجماعة أو يريد يفرق أمر أمة محمد كائنا من كان فاقتلوه فإن يد الله على الجماعة فإن الشيطان مع من فارق الجماعة يركض
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4026
´جماعت سے الگ ہونے والے شخص کو قتل کرنے کا بیان اور زیاد بن علاقہ کی عرفجہ سے روایت پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` عرفجہ بن شریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، (آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے پھر فرمایا) تو تم جسے دیکھو کہ وہ امت محمدیہ میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کر رہا ہے جب کہ وہ متفق و متحد ہیں تو اسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4026]
اردو حاشہ: (1) امت کا اتفاق و اتحاد ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر امت میں پھوٹ ڈالنا، ان میں تفریق پیدا کرنا اور انہیں حق و باطل کا معیار قرار دینا بہت بڑا جرم ہے۔ اگر امت کسی ایک امیر پر متفق ہو تو خواہ مخواہ امیر پر اعتراضات کر کے امت میں فساد پیدا کرنا بغاوت کی ذیل میں آتا ہے۔ امیر آخر انسان ہے فرشتہ نہیں، اس میں خامیاں ہو سکتی ہیں، وہ غلطی کر سکتا ہے مگر خامیاں اور غلطیاں بغاوت اور فساد کو جائز نہیں کر سکتیں۔ کیا کوئی امیر خامیوں اور غلطیوں سے پاک ممکن ہے؟ لہٰذا جب تک امیر واضح کفر کا ارتکاب نہ کر لے، اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں۔ البتہ اس پر جائز تنقید ہو سکتی ہے مگر تخریب جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4026
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4762
´خوارج سے قتال کا بیان۔` عرفجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میری امت میں کئی بار شر و فساد ہوں گے، تو متحد مسلمانوں کے شرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4762]
فوائد ومسائل: یہ فتنہ سب سے پہلے انہی لوگوں نے ڈالا جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ کے خلاف بغاوت کی جو متفق علیہ خلیفہ راشد تھے۔ بعد میں انہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ کے خلاف خروج (بغاوت) کیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4762