● صحيح البخاري | 2328 | عبد الله بن عمر | عامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع يعطي أزواجه مائة وسق ثمانون وسق تمر وعشرون وسق شعير |
● صحيح البخاري | 2329 | عبد الله بن عمر | عامل النبي خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع |
● صحيح البخاري | 2331 | عبد الله بن عمر | أعطى خيبر اليهود على أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما خرج منها |
● صحيح البخاري | 2720 | عبد الله بن عمر | أعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها |
● صحيح البخاري | 2499 | عبد الله بن عمر | أعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها |
● صحيح البخاري | 3152 | عبد الله بن عمر | نقركم على ذلك ما شئنا |
● صحيح البخاري | 2338 | عبد الله بن عمر | أجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز وكان رسول الله لما ظهر على خيبر أراد إخراج اليهود منها وكانت الأرض حين ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين وأراد إخراج اليهود منها فسألت اليهود رسول الله ليقرهم بها |
● صحيح البخاري | 2730 | عبد الله بن عمر | نقركم ما أقركم الله |
● صحيح البخاري | 4248 | عبد الله بن عمر | أعطى النبي خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها |
● صحيح مسلم | 3963 | عبد الله بن عمر | أعطى رسول الله خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع يعطي أزواجه كل سنة مائة وسق ثمانين وسقا من تمر وعشرين وسقا من شعير |
● صحيح مسلم | 3966 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولرسول الله شطر ثمرها |
● صحيح مسلم | 3967 | عبد الله بن عمر | نقركم بها على ذلك ما شئنا |
● صحيح مسلم | 3962 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع |
● جامع الترمذي | 1383 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع |
● سنن أبي داود | 3408 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع |
● سنن أبي داود | 3409 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها |
● سنن أبي داود | 3008 | عبد الله بن عمر | أقركم فيها على ذلك ما شئنا كانوا على ذلك وكان التمر يقسم على السهمان من نصف خيبر يأخذ رسول الله الخمس كان رسول الله أطعم كل امرأة من أزواجه من الخمس مائة وسق تمرا وعشرين وسقا شعيرا |
● سنن أبي داود | 3007 | عبد الله بن عمر | عامل يهود خيبر على أنا نخرجهم إذا شئنا فمن كان له مال فليلحق به فإني مخرج يهود فأخرجهم |
● سنن النسائى الصغرى | 3962 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها بأموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها |
● سنن النسائى الصغرى | 3961 | عبد الله بن عمر | دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ما يخرج منها |
● سنن ابن ماجه | 2467 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بالشطر مما يخرج من ثمر أو زرع |
● المعجم الصغير للطبراني | 524 | عبد الله بن عمر | أعطى خيبر على النصف مما أخرجت الأرض والنخل |
● المعجم الصغير للطبراني | 517 | عبد الله بن عمر | عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من زرع أو تمر يعطي أزواجه في كل عام مائة وسق مائة وسق ثمانين وسقا تمرا وعشرين وسقا شعيرا |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3962
´مزارعت (بٹائی) کے سلسلے میں وارد مختلف الفاظ اور عبارتوں کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود خیبر کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اپنے خرچ پر اس میں کام کریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کے پھل کا آدھا ہو گا۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3962]
اردو حاشہ:
کھجوروں یا کسی بھی پھل کے درخت کسی شخص کے سپرد کردیے جائیں کہ وہ انہیں پانی لگائے‘ درختوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرے حتیٰ کہ جب وہ پھل دیں گے تو نصف (یا کوئی اور حصہ) پھل اسے مل جائے گا۔ اسے عربی زبان میں مساقات کہتے ہیں۔ اور اگر کسی کو خالی زمین دے دی جائے کہ وہ اس میں کاشت کرے‘ محنت کرے اور پیداوار کا ایک معین حصہ (مثلاً تہائی‘ چوتھائی یا نصف) اسے ملے گا‘ اسے مخابرت یا مزارعت یا بٹائی کہا جاتا ہے۔ گویا آپ ﷺ نے یہودیوں سے مساقات بھی کی اور مزارعت بھی۔ اور یہ دونوں جائز ہیں۔ بعض لوگ جو بٹائی کو جائز نہیں سمجھتے‘ وہ مساقات کو جائز سمجھتے ہیں اور مساقات کے بالتبع مزارعت کو بھی‘ یعنی اگر کھجور یا کسی بھی پھل دار درختوں والی زمین بھی درختوں کے ساتھ دے دی جائے اور وہ درختوں کی خدمت اور نگہبانی کے ساتھ ساتھ اس زمین میں کاشت بھی کرے تو اسے پھلوں کے ساتھ ساتھ فصل سے بھی حصہ دیا جاسکتا ہے‘ حالانکہ مساقات اور مزارعت میں کوئی فرق نہیں۔ اگر جائز ہیں تو دونوں جائز ہیں ورنہ دونوں ناجائز۔ کسی ایک کو دوسرے کے بالتبع جائز قراردینا بھی عجیب بات ہے۔ اگر بٹائی ناجائز ہے تو مساقات کے بالتیع کیونکر جائز ہوگی؟ دراصل دونوں جائز ہیں۔ اکٹھے بھی اور الگ الگ بھی۔ ہر مسلک کے محقق علماء اسی کے قائل ہیں۔ محدثین تو تمام کے تمام جائز سمجھتے ہیں۔ والحمد للہ علی ذالك
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3962
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1383
´مزارعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے،
ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں،
احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپﷺ کے غلام تھے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے ”نُقرُكُم مَا أَقَركُمُ الله“ ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے،
نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں،
اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے،
اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا،
رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں،
یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے،
وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گا اورباقی حصے کی تم لینا،
تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1383
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل:
1۔
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔
اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔
اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔
(صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔
البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔
اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔
(فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر)
2۔
خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3008