اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابن ابي عدي، عن خالد. ح وانبانا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا خالد، عن ابي قلابة، عن ثابت بن الضحاك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من حلف بملة سوى الإسلام كاذبا فهو كما قال"، قال قتيبة في حديثه:" متعمدا"، وقال يزيد:" كاذبا فهو كما قال". (حديث مرفوع) (حديث موقوف)" ومن قتل نفسه بشيء عذبه الله به في نار جهنم". أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ. ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ سِوَى الْإِسْلَامِ كَاذِبًا فَهُوَ كَمَا قَالَ"، قَالَ قُتَيْبَةُ فِي حَدِيثِهِ:" مُتَعَمِّدًا"، وَقَالَ يَزِيدُ:" كَاذِبًا فَهُوَ كَمَا قَالَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف)" وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عَذَّبَهُ اللَّهُ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ".
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے سوا کسی اور ملت و مذہب کی جو کوئی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا“، قتیبہ نے اپنی حدیث میں «متعمدا» کہا ہے (یعنی دوسری ملت کی جان بوجھ کر قسم کھائے) اور یزید نے «كاذبا» کہا ہے (جو دوسری ملت کی جھوٹی قسم کھائے گا) تو وہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ۱؎ اور جو کوئی اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دے گا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی نے قسم کھائی کہ اگر یہ کام مجھ سے نہ ہوا تو میں یہودی یا نصرانی یا مذہب اسلام سے بیزار و متنفر ہوں اور وہ اپنی اس قسم میں پورا نہیں اترا بلکہ جھوٹا ثابت ہوا تو وہ اپنے کہے کے مطابق ہو گا، لیکن علماء کا کہنا ہے کہ یہ وعید اور دھمکی کے طور پر ہے، اگر دلی طور پر وہ اپنے ایمان سے مطمئن ہے تو اسے اپنے اس قول سے کچھ بھی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔
من حلف على ملة غير الإسلام فهو كما قال ليس على ابن آدم نذر فيما لا يملك من قتل نفسه بشيء في الدنيا عذب به يوم القيامة من لعن مؤمنا فهو كقتله من قذف مؤمنا بكفر فهو كقتله
ليس على رجل نذر فيما لا يملك ولعن المؤمن كقتله ومن قتل نفسه بشيء في الدنيا عذب به يوم القيامة ومن ادعى دعوى كاذبة ليتكثر بها لم يزده الله إلا قلة ومن حلف على يمين صبر فاجرة
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3801
´اسلام کے سوا کسی دوسری ملت اور مذہب کی قسم کھانے کا بیان۔` ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے سوا کسی اور ملت و مذہب کی جو کوئی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا“، قتیبہ نے اپنی حدیث میں «متعمدا» کہا ہے (یعنی دوسری ملت کی جان بوجھ کر قسم کھائے) اور یزید نے «كاذبا» کہا ہے (جو دوسری ملت کی جھوٹی قسم کھائے گا) تو وہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ۱؎ اور جو کوئی اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3801]
اردو حاشہ: (1) اس قسم کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کہے: اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی یا عیسائی وغیرہ ہوجاؤں‘ حالانکہ اس نے وہ کام کیا ہے اور اسے یاد بھی ہے۔ یا اگر میں یہ کام کروں تو میں یہودی یا عیسائی‘ جب کہ اس کی نیت ہو کام کرنے کی ہے‘ صرف دھوکا دہی کے لیے قسم کھاتا ہے۔ ظاہر ہے اس شخص نے یہودی یا عیسائی ہونے کے پسند کیا ہے۔ گویا وہ یہودی یا عیسائی ہی ہے۔ (2)”عذاب دیتا رہے گا“ یعنی اس کی موت سے لے کر حشر تک۔ اس کے بعد اس کے مجموعی اعمال کی بنیاد پر اس کے جنت یا جہنم میں جانے کا فیصلہ ہوگا۔ یہ اس کی قسمت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3801
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2098
´اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں جانے کی قسم کھانے کا بیان۔` ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہو گا جیسا اس نے کہا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2098]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) دوسرے مذہب کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہا: ”اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی ہوں“ یا کہا: ”اگر میں جھوٹ کہوں تو کافر ہو جاؤں۔“ اس انداز کی قسم سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(2) حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ اگر قسم کھاتے وقت اس کا ارادہ بھی یہی تھا کہ اگر اس نے یہ کام کیا تو وہ کفر کا راستہ اختیار کر لے گا تو وہ فی الفور کافر ہو جائے گا اور اگر اس کا مقصد دین اسلام پر استقامت کا اظہار تھا اور اس کا عزم تھا کہ وہ کبھی کفر کا راستہ اختیار نہیں کرے گا تو وہ کافر تو نہیں ہو گا لیکن اس کے لیے اس نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا اس لیے اسے توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ دوبارہ کلمہ شہادت پڑھ کر تجدید اسلام کر لے۔ دیکھیے: (ریاض الصالحین (اردو) جلد دوم، حدیث: 1710 کے فوائد مطبوعہ دارالسلام)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2098
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1543
´اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کے قسم کی کراہت کا بیان۔` ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1543]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ تغلیظ وتہدید کے طورپر ہے اگر صحیح عقیدہ کا حامل ہے تو کافر نہیں ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1543
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2636
´اپنے مسلمان بھائی کو کافر ٹھہرانے والا کیسا ہے؟` ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جس چیز کا مالک نہ ہو اس چیز کی نذر مان لے تو اس نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ۱؎، مومن پر لعنت بھیجنے والا گناہ میں اس کے قاتل کی مانند ہے اور جو شخص کسی مومن کو کافر ٹھہرائے تو وہ ویسا ہی برا ہے جیسے اس مومن کا قاتل، اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر ڈالا، تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دے گا۔“[سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2636]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ میرے مریض کو شفاء دے دے تو فلاں غلام آزاد ہے، حالاں کہ اس غلام کا وہ مالک نہیں ہے، معلوم ہوا کہ جو چیز بندہ کے بس میں نہیں ہے اس کی نذر ماننا صحیح نہیں اور ایسی نذرکا کچھ بھی اعتبار نہیں ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2636