اخبرنا محمد بن يحيى بن عبد الله بن خالد النيسابوري، قال: حدثنا محمد بن موسى بن اعين، قال: حدثنا ابي، عن معمر، عن الزهري، قال: حدثنا ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم انها اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءها حين امره الله ان يخير ازواجه، قالت عائشة: فبدا بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" إني ذاكر لك امرا، فلا عليك ان لا تعجلي، حتى تستامري ابويك، قالت: وقد علم ان ابوي لا يامراني بفراقه، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يايها النبي قل لازواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين امتعكن سورة الاحزاب آية 28 , فقلت: في هذا استامر ابوي فإني اريد الله ورسوله والدار الآخرة". أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهَا حِينَ أَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُخَيِّرَ أَزْوَاجَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَدَأَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي، حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ سورة الأحزاب آية 28 , فَقُلْتُ: فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ آپ اپنی ازواج کو (دو بات میں سے ایک کو اپنا لینے کا) اختیار دیں۔ اس کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سب سے پہلے) میرے پاس آ کر کی۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کا ذکر کرتا ہوں لیکن جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کر لو جواب دینے میں جلدی نہ کرنا“۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی اختیار کر لینے کا مشورہ اور حکم (کبھی بھی) نہ دیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا: (یعنی یہ آیت پڑھی) «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن»”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی، دنیاوی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں، اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں“(الاحزاب: ۲۸) میں نے کہا: اس سلسلہ میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ (مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) کیونکہ میں اللہ کو، اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر (جنت) کو چاہتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے)۱؎۔
ذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت قد علم أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه قالت ثم قال إن الله قال يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن وأسرحكن سراحا جميلا وإن كنتن تردن الله ورسوله والدار الآخرة ف
ذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت قد علم أن أبواي لم يكونا ليأمراني بفراقه قالت ثم تلا هذه الآية يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا إلى قوله جميلا
ذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت قد علم والله أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه فقرأ علي يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها
ذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت وقد علم أن أبوي لا يأمراني بفراقه ثم قال رسول الله يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن
ذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي فيه حتى تستأمري أبويك قالت قد علم والله أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه قالت فقرأ علي يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3203
´اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ آپ اپنی ازواج کو (دو بات میں سے ایک کو اپنا لینے کا) اختیار دیں۔ اس کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سب سے پہلے) میرے پاس آ کر کی۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کا ذکر کرتا ہوں لیکن جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کر ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3203]
اردو حاشہ: (1) جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے لگیں اور اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی بھی کثرت ہوئی تو مسلمانوں کی مالی حالت بھی پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن بھی انسان ہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ سہولتیں حاصل ہوں، جس کا اظہار انہوں نے رسول اللہﷺ سے کیا۔ اس سے آپ پریشان ہوگئے تو اللہ تعا لیٰ نے اس کا حل تجویز فرمایا کہ آپ اپنی عورتوں کو صاف بتا دیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا کام کررہا ہوں۔ دنیا کی زیب وزینت سے بہت دورہوں۔ اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں میری طرح جھوٹا موٹا کھا کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اگر تم اس طرح درویشانہ طریقے سے زندگی گزارسکو تو بہتر ہے، اور اگر تم میری طرح نہیں رہ سکتیں اور تمہیں زیادہ مال چاہیے تو میں برضا ورغبت بغیر کسی ناراضی کے تمہیں اپنی زوجیت سے فارغ کردیتا ہوں، جہاں چاہے نکاح کرلو۔ مگر آفرین ہے آپ کی ازواج مطہرات پر کہ کسی نے بھی دنیا کا نام نہ لیا اور پھر کبھی مرتے دم تک درویشی نہ چھوڑی۔ رسول اللہﷺ کی زوجیت (دنیا وجنت میں) اور اللہ تعالیٰ کے اجروعظیم پرشاداں وفرحاں رہیں۔ کبھی فقر وفاقہ کی شکایت نہ کی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهنْ وأرضاھن (2) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ آپ کا خاصہ شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارے لیے فرض ہے کہ بیویوں کو ان کا کھانا، پینا اور لباس ہر صورت مہیا کریں۔ اور یہ ان کا حق ہے، لہٰذا ہم اپنی بیویوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں میرے ساتھ بھوکا رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے لو۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے ایسا اعلان واجب تھا کیونکہ آپ کی شان بہت بلند ہے۔ نبی کے گھر میں نبوی مزاج والی عورتیں ہی مناسب ہیں تاکہ نبی کو پریشانی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کا درجہ بھی بلند رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (2) خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت کرنی چاہیے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ا س کا اجر عظیم ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3203
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2053
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: ”عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا“، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها»(سورة الأحزاب: 28)”اے نبی! اپنی بیویو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2053]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ان تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔
(2) اس میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی رسو ل اللہﷺ سے محبت کا بیان ہے۔
(3) امہات المومنین کے عظیم ایمان اور آخرت کےاجر و ثواب کی طلب کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کے ثواب کے حصول کا فیصلہ فرمالیا۔
(4) رسول اللہﷺ کی یہ خواہش کہ والدین سے مشورہ کرکے جواب دیں، اس لیے تھی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری کی وجہ سے کوئی غلط جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔
(5) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے ایمان کی پختگی اور ایمانی فراست پر نبیﷺ کا اعتماد۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2053