اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن نافع، ان ابن عمر اراد الحج عام نزل الحجاج بابن الزبير , فقيل له: إنه كائن بينهم قتال وانا اخاف ان يصدوك، قال: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، إذا اصنع كما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم إني اشهدكم اني قد اوجبت عمرة ثم خرج حتى إذا كان بظاهر البيداء، قال: ما شان الحج والعمرة إلا واحد؟ اشهدكم اني قد اوجبت حجا مع عمرتي، واهدى هديا اشتراه بقديد ثم انطلق يهل بهما جميعا حتى قدم مكة فطاف بالبيت وبالصفا والمروة ولم يزد على ذلك، ولم ينحر، ولم يحلق، ولم يقصر ولم يحل من شيء حرم منه حتى كان يوم النحر فنحر، وحلق، فراى ان قد قضى طواف الحج والعمرة بطوافه الاول وقال ابن عمر: كذلك فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم". أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ , فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ وَأَنَا أَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، قَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، إِذًا أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ؟ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي، وَأَهْدَى هَدْيًا اشْتَرَاهُ بِقُدَيْدٍ ثُمَّ انْطَلَقَ يُهِلُّ بِهِمَا جَمِيعًا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَمْ يَنْحَرْ، وَلَمْ يَحْلِقْ، وَلَمْ يُقَصِّرْ وَلَمْ يَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَنَحَرَ، وَحَلَقَ، فَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَذَلِكَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
نافع سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ ان کے درمیان جنگ ہونے والی ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ آپ کو (حج سے) روک دیں گے تو انہوں نے کہا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیش آئی تو میں ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۱؎ میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ واجب کر لیا ہے پھر چلے، جب بیداء کے پاس پہنچے تو کہا: حج و عمرہ دونوں تو ایک ہی ہیں، میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، اور ہدی بھی ساتھ لے لی جسے قدید میں خریدا تھا پھر کچھ راستے دونوں (حج و عمرہ) کا تلبیہ پکارتے ہوئے چلے یہاں تک کہ مکہ آ گئے، تو بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی اس سے زیادہ کچھ نہ کیا، نہ قربانی کی، نہ سر منڈایا، نہ بال کتروائے، اور نہ ان چیزوں سے حلال ہوئے جو اس کی وجہ سے ان پر حرام ہوئی تھیں یہاں تک کہ جب ذی الحجہ کی دسویں تاریخ آئی تو انہوں نے نحر کیا (قربانی کیا) سر منڈوایا اور یہ خیال کیا کہ پہلے ہی طواف سے حج و عمرہ دونوں کا طواف ہو گیا ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔
وضاحت: ۱؎: صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کافروں نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا تو آپ نے وہیں قربانی کر ڈالی تھی، بال منڈوا لیا تھا اور احرام کھول دیا تھا پھر دوسرے سال آپ نے عمرہ کی قضاء کی تھی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2747
´جب عمرہ کا تلبیہ پکارے تو کیا اس کے ساتھ حج بھی کر سکتا ہے؟` نافع سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ ان کے درمیان جنگ ہونے والی ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ آپ کو (حج سے) روک دیں گے تو انہوں نے کہا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیش آئی تو میں ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۱؎ میں تمہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2747]
اردو حاشہ: (1) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کی حکومت کے خلاف مکے میں پناہ لے رکھی تھی، پھر انھوں نے خلافت کا دعویٰ کر دیا۔ اہل اسلام کے بہت سے علاقوں نے ان کی بیعت کر لی۔ ادھر مروان کی وفات کے بعد ان کا بیٹا عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے آہستہ آہستہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا علاقہ حکومت کم کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ ان کا تسلط صرف مکے کی حد تک رہ گیا۔ 73ہجری میں عبدالملک نے حجاج کو ان کا قلع قمع کرنے کے لیے بھیجا۔ حجاج نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر کے لڑائی شروع کر دی۔ آخر کار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اور ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ رہے نام اللہ کا۔ اس سال خطرہ تھا کہ شاید حج کے دنوں سے پہلے لڑائی ختم نہ ہو اور حج نہ ہو سکے، مگر لڑائی پہلے ہی ختم ہوگئی اور باقاعدہ حج ہوا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ حج کا ارادہ رکھنے والے کو اگر راستے میں خطرہ ہو تو اس کے باوجود وہ حج کی نیت سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ اسے یقین نہ ہو بلکہ بچ جانے کی بھی امید ہو۔ یہ ”اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا“ نہیں ہے۔ (3)”بہترین نمونہ ہیں“ ان کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کو بھی عمرۂ حدیبیہ میں بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا گیا تھا، جیسے آپ نے کیا، ہم اسی طرح کریں گے۔ جہاں روک دیے گئے، وہاں قربانیاں ذبح کر دیں گے، حجامت بنوائیں گے اور حلال ہو جائیں گے۔ (4)”پہلے طواف کے ساتھ“ اس جملے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ انھوں نے بیت اللہ پہنچتے وقت جو طواف قدوم اور سعی کیے تھے، انھیں کافی سمجھا اور مزید طواف نہیں کیا۔ لیکن یہ مفہوم درست نہیں کیونکہ یوم نحر کو طواف کرنا قطعی بات ہے۔ اس کے بغیر حج نہیں ہوتا، لہٰذا اس جملے کا مفہوم یا تو یہ ہوگا کہ انھوں نے حلال ہونے کے لیے پہلے طواف وسعی ہی کو کافی سمجھا۔ فرض طواف کا انتظار نہیں کیا بلکہ وہ بعد میں کیا۔ اور یہ بالکل صحیح ہے۔ یوم نحر میں تو قربانی کے بعد احرام ختم ہو جاتا ہے، طواف حلال ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ یا طواف سے سعی مراد لی جائے، یعنی انھوں نے پہلی سعی (جو طواف قدوم کے ساتھ کی تھی) ہی کو کافی سمجھا اور یوم نحر کے طواف کے بعد سعی نہیں کی۔ امام شافعی رحمہ اللہ قران (حج و عمرہ اکٹھا کرنا) کی صورت میں اسی کے قائل ہیں کہ اگر پہلے سعی کی ہو تو یوم نحر کو سعی کی ضرورت نہیں۔ اور صرف حج کی صورت میں احناف بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ یہ دو مفہوم مراد ہوں تو یہ جملہ صحیح ہے ورنہ یہ جملہ دیگر کثیر روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔ (سعی کو بھی طواف کہہ لیا جاتا ہے۔)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2747