علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 532
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایا ”جس شخص نے صبح صادق سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا کوئی روزہ نہیں۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور نسائی کا رجحان اس کے موقوف ہونے کی طرف ہے اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اس کا مرفوع ہونا صحیح قرار دیا ہے اور دارقطنی کی روایت میں ہے ”جس نے رات کو اپنے آپ پر واجب نہ کر لیا اس کا کوئی روزہ نہیں۔“ [بلوغ المرام/حدیث: 532]
لغوی تشریح 532:
مَنْ لَّم یُبَیِّتِ۔۔۔ الخ یُبَیِّتِ تَبِییت سے ماخوذ ہے، یعنی رات میں روزے کی نیت کرنا۔
لَم یَفرِضہُ باب ضرب یضرب سے ہے، یعنی اسے اپنے اوپر فرض نہیں کیا اور یہ اس طرح کہ اس نے روزے کی نیت نہ کی۔
فوائد و مسائل 532:
➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندًا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں فاضل محقق نے سنن ابنِ ماجہ کی تحقیق میں اس روایت کی بابت لکھا ہے کہ یہ مذکورہ روایت سنن نسائی میں بھی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، وہ روایت موقوفًا صحیح ہے۔ دیکھیے: تحقیق و تخریج سنن ابنِ ماجہ، رقم: 1700 شیخ البانی رحمہ اللہ نے أرواءالغلیل میں اسپر کافی بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [أرواءالغليل: 25/4، 30، رقم: 914]
بنابریں فرضی روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروبِ آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔ 2۔ نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جا سکتی ہے۔
➌ نیت اس لیے ضروری اور لازمی ہے کہ روزہ ایک عمل ہے اور عمل کے لیے نیت ضروری ہے اور ہر دن کے روزے کے لیے الگ الگ نیت شرط ہے، البتہ روزے کی نیت کے جو الفاظ زبان سے کہے جاتے ہیں وہ بدعت ہیں کیونکہ نیت دل کا عمل ہے، زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی سے ثابت ہیں۔
راوئ حدیث:
حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنھا پہلے یہ خنیس بن حذافہ سھمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان کے ساتھ ہجرت کی۔ غزؤہ بدر کے بعد وہ وفات پا گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 ہجری میں انہیں اپنی زوجیت میں لے کر اپنے حرم میں داخل فرمالیا۔ ساٹھ سال کی عمر میں شعبان 45 ہجری میں فوت ہوئیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 532