اخبرني محمد بن قدامة، قال: حدثنا جرير، عن ابي فروة، عن المغيرة بن سبيع، حدثني عبد الله بن بريدة، عن ابيه، انه كان في مجلس فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" إني كنت نهيتكم ان تاكلوا لحوم الاضاحي إلا ثلاثا فكلوا واطعموا وادخروا ما بدا لكم، وذكرت لكم ان لا تنتبذوا في الظروف الدباء والمزفت والنقير والحنتم انتبذوا فيما رايتم، واجتنبوا كل مسكر ونهيتكم عن زيارة القبور، فمن اراد ان يزور فليزر ولا تقولوا هجرا". أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا لُحُومَ الْأَضَاحِيِّ إِلَّا ثَلَاثًا فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَذَكَرْتُ لَكُمْ أَنْ لَا تَنْتَبِذُوا فِي الظُّرُوفِ الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ وَالنَّقِيرِ وَالْحَنْتَمِ انْتَبِذُوا فِيمَا رَأَيْتُمْ، وَاجْتَنِبُوا كُلَّ مُسْكِرٍ وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَزُورَ فَلْيَزُرْ وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا".
بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا (تو اب تم) کھاؤ، کھلاؤ اور جب تک جی چاہے رکھ چھوڑو، اور میں نے تم سے ذکر کیا تھا کہ کدو کی تمبی، تار کول ملے ہوئے، اور لکڑی کے اور سبز اونچے گھڑے کے برتنوں میں نبیذ نہ بناؤ، (مگر اب) جس میں مناسب سمجھو بناؤ، اور ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو، اور میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا (تو اب) جو بھی زیارت کرنا چاہے کرے، البتہ تم زبان سے بری بات نہ کہو“۔
نهيتكم عن ثلاث وأنا آمركم بهن نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فإن في زيارتها تذكرة نهيتكم عن الأشربة أن تشربوا إلا في ظروف الأدم فاشربوا في كل وعاء لا تشربوا مسكرا نهيتكم عن لحوم الأضاحي أن تأكلوها بعد ثلاث فكلوا واستمتعوا بها في أسفاركم
نهيتكم أن تأكلوا لحوم الأضاحي إلا ثلاثا فكلوا وأطعموا وادخروا ما بدا لكم لا تنتبذوا في الظروف الدباء والمزفت والنقير والحنتم وانتبذوا فيما رأيتم اجتنبوا كل مسكر نهيتكم عن زيارة القبور فمن أراد أن يزور فليزر ولا تقولوا هجرا
نهيتكم عن ثلاث عن زيارة القبور فزوروها ولتزدكم زيارتها خيرا نهيتكم عن لحوم الأضاحي بعد ثلاث فكلوا منها وأمسكوا ما شئتم نهيتكم عن الأشربة في الأوعية فاشربوا في أي وعاء شئتم لا تشربوا مسكرا
نهيتكم عن لحوم الأضاحي بعد ثلاث عن النبيذ إلا في سقاء عن زيارة القبور فكلوا من لحوم الأضاحي ما بدا لكم وتزودوا وادخروا من أراد زيارة القبور فإنها تذكر الآخرة واشربوا اتقوا كل مسكر
نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها نهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام فأمسكوا ما بدا لكم نهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء فاشربوا في الأسقية كلها لا تشربوا مسكرا
نهيتكم عن ثلاث زيارة القبور فزوروها ولتزدكم زيارتها خيرا نهيتكم عن لحوم الأضاحي بعد ثلاث فكلوا منها ما شئتم نهيتكم عن الأشربة في الأوعية فاشربوا في أي وعاء شئتم لا تشربوا مسكرا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2035
´قبروں کی زیارت کا بیان۔` بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا (تو اب تم) کھاؤ، کھلاؤ اور جب تک جی چاہے رکھ چھوڑو، اور میں نے تم سے ذکر کیا تھا کہ کدو کی تمبی، تار کول ملے ہوئے، اور لکڑی کے اور سبز اونچے گھڑے کے برتنوں میں نبیذ نہ بناؤ، (مگر اب) جس میں مناسب سمجھو بناؤ، اور ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو، اور میں نے تمہیں قبروں ک [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2035]
اردو حاشہ: ”غلط بات“ مثلاً: شرکیہ بات، نوحہ، رونا دھونا وغیرہ۔ عورتیں اتنا ضبط نہیں رکھتیں، لہٰذا وہ کبھی کبھار ہی جا سکتی ہیں، تاہم جن عورتوں سے یہ خطرہ نہ ہو، ان کے لیے قبرستان جانے کی اجازت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2035
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 472
´قبروں کی زیارت جائز ہے` ”سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کرو۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 472]
لغوی تشریح: «فَزُورُوهَا» «زيارة» سے امر کا صیغہ ہے۔ یہ اجازت ممانعت کے بعد تھی۔ «تُذَكَّرُ» «تذكير» سے ماخوذ ہے، یعنی یاد دہانی کراتی ہے۔ «تُزْهَّدُ» «تزهيد» سے ماخوذ ہے، یعنی دنیا سے بےرغبت و زاہد بنا دیتی ہے۔ زیارت قبور سے بس یہی مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔
فوائد و مسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبروں کی زیارت جائز ہے۔ ➋ ابتداء میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا مگر پھر اس کی اجازت دے دی اور اس سے مقصد آخرت کی یاد اور میت کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرنا ہے۔ ➌ قبروں پر نذر و نیاز اور عرس وغیرہ کا شریعت مطہرہ میں کوئی جواز نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 472
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1054
´قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان۔` بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1054]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس میں قبروں کی زیارت کااستحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اورتاکید ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیاگیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانۂ جاہلیت کے اثرسے وہاں کوئی غلط کام نہ کربیٹھیں پھرجب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدۂ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دیدی گئی بلکہ اس کی تاکیدکی گئی تاکہ موت کا تصورانسان کے دل ودماغ میں ہروقت رچابسارہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1054
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3235
´قبروں کی زیارت کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3235]
فوائد ومسائل: 1۔ زیارت قبور ایک مشروع او ر مسنون عمل ہے۔ انسان جہاں کہیں مقیم ہو وہاں کے قبرستان کی زیارت کو اپنا معمول بنالے۔ مگر صرف اس مقصد کےلئے دور دراز کا سفر کرنا جائز نہیں۔ 2۔ زیارت قبور کے مسنون آداب ہیں۔ یعنی قبرستان میں داخل ہونے کی دعا اور مسلمان اہل قبور کے لئے دعائے مغفرت نہ کہ وہاں جا کر نماز پڑھنا۔ یا تلاوت قرآن کرنا۔ قبر کو مقام قبولیت سمجھنا یا صاحب قبر کے واسطے اور وسیلے سے دعا کرنا یا خود اسی کو اپنی حاجات پیش کرنا۔ یہ سب کام حرام ہیں۔ اور اسی طرح قبروں پر میلے ٹھیلے اور عرس وقوالی وغیرہ کا احادیث رسول اللہ ﷺ اور عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3235