اخبرنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن عبد الله بن ابي بكر، عن ابيه، عن عمرة، انها اخبرته، انها سمعت عائشة وذكر لها، ان عبد الله بن عمر، يقول:" إن الميت ليعذب ببكاء الحي عليه" , قالت عائشة: يغفر الله لابي عبد الرحمن، اما إنه لم يكذب ولكن نسي او اخطا، إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكى عليها، فقال:" إنهم ليبكون عليها وإنها لتعذب". أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ وَذُكِرَ لَهَا، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنْ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ:" إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ".
عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا جب ان کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت کرے، سنو! انہوں نے جھوٹ اور غلط نہیں کہا ہے، بلکہ وہ بھول گئے انہیں غلط فہمی ہوئی ہے (اصل بات یہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ عورت (کی قبر) کے پاس سے گزرے جس پر (اس کے گھر والے) رو رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1595
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت کا انتقال ہو گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس پر روتے ہوئے سنا، تو فرمایا: ”اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جب کہ اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1595]
اردو حاشہ: فائدہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پس ماندگان کے رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک کے عمل کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔ رسول اللہ ﷺنے یہ بات ایک قانون کے طور پر نہیں فرمائی تھی۔ کہ ہر رونے والے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ بلکہ یہودیوں کو اپنے مرنے والی پر روتے دیکھ کر فرمایا تھا کہ ان کے رونے کا اسے کیا فائدہ؟ وہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت ہی رہی ہے۔ یہ رویئں یا نہ رویئں برابر ہے۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ رائے اپنی جگہ درست ہے کہ رونے پیٹنے کا میت کو کیا فائدہ؟ تاہم حدیث کا وہ مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان کے رونے سے بھی اسے عذاب ہوتا ہے۔ جبکہ وہ اپنى زندگی میں اسے اچھا سمجھتا رہا ہواس کی تلقین کرتا رہا ہو یا ا س کی وصیت کی ہو اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر ان کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اسے افسوس تو ہوتا ہے۔ کہ جو موقع عبرت حاصل کرنے کا تھا۔ اس موقع پر بھی وہ گناہ میں ملوث ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں۔ (باب قول النبي صلي الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ...اذا كان النوح من سنته.......،)(صحیح البخاري، الجنائز، باب: 32) نبی ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ میت کو اس کے بعض گھر والوں کے بعض رونے سے عذاب ہوتا ہے۔ یعنی جب رونا پیٹنا اس (کے خاندان) کی رسم ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1595